تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے ۔ (دیکھیے حدیث: 21329) چونکہ معاملات میں اختلاف کا فیصلہ گواہی کی بنیاد پر ہوتا ہے اس لیے جس شخص کو حقیقت کا علم ہو اسے چاہیے کہ گواہی دینے میں پس و پیش نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلا تَكتُمُوا الشَّهادَةَ﴾ (البقرہ 2:283) ’’گواہی مت چھپاؤ۔‘‘
(2) جب مدعی گواہ پیش نہ کرسکے یا اس کے گواہ قابل قبول نہ ہوں تو مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے۔
(3) حدیث میں مذکورہ صورت میں دونوں افراد کو مدعی بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور دونوں مدعاعلیہ بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔ اب کون مدعا علیہ بن کر قسم کھائے اس کا فیصلہ قرعہ اندازی سے ہوگا۔