تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ’قرن‘‘سےمراد ایک زمانے کےلوگ یعنی ایک نسل کےلوگ ہوتےہیں ۔ یہاں قرن اول سےمراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت ان سےمتصل لوگوں سےمراد تابعین عظام اوران سے متصل لوگوں سے مراد تبع تابعین حضرات ہیں۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امت کےافضل ترین افراد ہیں ادنی سےادنی درجےکا صحابی افضل ترین تابعی سےافضل ہے۔
(3) صحابہ تابعین اورتبع تابعین کا مقام بعد کےتمام افراد سےبلند ہے۔
(4) گواہی اورقسم بہت اہم اورنازک ذمے داری ہے۔ جھوٹی گواہی کی وجہ سے لوگوں کےفیصلے غلط ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کسی کا حق دوسرے کومل جاتا ہے اورحق دارمحروم رہ جاتا ہے۔ اسی طرح جھوٹی قسم کی وجہ سے جھوٹ پراعتبار کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سی ناانصافیاں واقع ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جھوٹی قسم کھانا اللہ کی شان میں گستاخی بھی ہے۔
(5) قسم اورگواہی ایک دوسرے سےجلد آنے کا مطلب یہ ہےکہ انھیں اس کی اہمیت اورنزاکت کا احساس نہیں ہوگا، لہٰذا بلاتکلف سچی جھوٹی قسمیں کھائیں گے، خاص طورپرگواہی دیتےوقت جھوٹی قسمیں کھانے میں باک محسوس نہیں کریں گے۔ یہ بہت بری عادت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 320 :
أخرجه البخاري ( 5 / 199 ، 7 / 6 ، 11 / 460 ) و مسلم ( 7 / 184 - 185 ) و ابن
ماجه ( 2 / 63 - 64 ) و الطيالسي ( ص 39 رقم 299 ) و أحمد ( 1 / 378 ، 417 ،
434 ، 438 ، 442 ) و الخطيب في تاريخه ( 12 / 53 ) من طريق إبراهيم عن عبيدة
السلماني عن عبد الله بن مسعود مرفوعا .
و زاد الشيخان و غيرهما : " قال إبراهيم : و كان أصحابنا ينهوننا و نحن غلمان
أن نحلف بالشهادة و العهد " .
و له شاهد من حديث النعمان بن بشير بهذا اللفظ إلا أنه قال ثلاث مرات " ثم
الذين يلونهم " فأثبت القرن الرابع .
أخرجه أحمد ( 4 / 267 ، 276 ، 277 ) من طريق عاصم عن خيثمة بن عبد الرحمن عنه .
و هذا سند حسن ، و قال في " المجمع " ( 10 / 19 ) : " رواه أحمد و البزار
و الطبراني في الكبير و الأوسط و في طرقهم عاصم ابن بهدلة و هو حسن الحديث
و بقية رجال أحمد رجال الصحيح " .
و ثبت ذلك في الحديث الآتي . و في ثبوت هذه الزيادة عندي نظر لأنها لم تأت من
طريق صحيحة و عاصم بن بهدلة في حفظه شيء فلا يحتج بما تفرد به دون الثقات .