تشریح:
(1) انسان کی زندگی انتہائی مختصر اور محدود ہے۔ انسان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس مختصر مدت میں ایسے کام کر لے جو اسے موت کے بعد فائدہ دیں۔ ان میں سے وہ اعمال خاص اہمیت رکھتے ہیں جن کا ثواب مسلسل حاصل ہوتا رہے۔ ایسے اعمال کی وجہ سے وہ تھوڑے وقت میں بھی زیادہ کمائی کر سکتا ہے اس لیے انہیں بہترین ترکہ قرار دیا گیا ہے۔
(2) انسان کو مرنے کے بعد ان اعمال کا ثواب ملتا رہتا ہے جن کا دوسروں کو فائدہ حاصل ہوتا رہے۔ اس حدیث میں بطور مثال تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں۔
(3) اولاد اللہ کی عظیم نعمت ہے، خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں۔ اس نعمت پر شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ اچھے مسلمان اور معاشرے کے مفید رکن بن سکیں۔ نیک اولاد زندگی میں بھی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دنیوی معاملات میں دست و بازو بنتی ہے اور والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے لیے درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہے۔ جب اولاد والدین کے حق میں خلوص سے دعا کرے تو فوت شدہ والدین کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
(4) فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعا کا کوئی مخصوص وقت یا مخصوص طریقہ نہیں۔ قل، دسواں، چالیسواں، برسی وغیرہ محض رسمیں ہیں جو ہندوؤں کی نقل میں مسلمانوں نے اختیار کر لی ہیں، شرعی طور پر ان کا کوئی ثبوت نہیں، لہذا ان پر ثواب کی امید بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کے علاوہ ایصال ثواب کے مروج طریقے بھی قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہیں۔
(5) صدقہ جاریہ سے مراد ایسی چیز ہے جس کا فائدہ دیر تک حاصل ہوتا رہے، مثلا: جہاں لوگوں کو پانی کے حصول میں مشکل پیش آتی ہو وہاں پانی کا انتظام کرنا، کسی بے کار آدمی کو کوئی ہنر سکھا دینا جس سے وہ حلال روزی کماتا رہے وغیرہ۔
(6) کسی کو علم سکھانا یا کوئی مفید علمی کام کرنا بھی ایک ایسا عمل ہے جس کا ثواب جاری رہتا ہے۔ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیھم کی تصنیفات اور دوسری علمی تالیفات بھی اس میں شامل ہیں، جب تک ان سے استفادہ کیا جاتا رہے گا۔ صنفین کو ثواب پہنچتا رہے گا۔