تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگرمحققین نے صیحح قرار دیا ہےلہٰذا مذکورہ روایت صیحح ہونے کی صورت میں درج ذیل مسائل کا استنباط کیا جاسکتا ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے: (الإروء للألبانی رقم:235)
(2) رسول اللہ ﷺنے امت کے بارے جن خطرات کا اظہار فرمایا ہمیں چاہیے ان معاملات میں زیادہ احتیاط کریں
(3) اگر کوئی شخص اپنے لیے اس گناہ میں ملوث ہونے کا خطر ہ محسوس کرے توفوراً اسے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے:
(1) اگر وہ غیر شادی شدہ ہے توجلد از جلد شادی کرے تاکہ فطری ضرورت کی تسکین کا جائز ذریعہ میسرآ جائے۔
(2) جوفرد فتنے کا باعث بن رہا ہے اسے میل جول کم سےکم کر دے۔
(3) ایسے شخص کو نظربھرکے نہ دیکھے نیز اس کے جسمانی محاسن کی طرف توجہ نہ کرے اور غض بصر(نظرجکھا کر رکھنے) کا اہتمام کرے۔
(4) قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں سے ایسے مقامات کا مطالعہ کرے جن میں بدکاری کی شناعت اس کے گناہ اور اس پر اللہ کے عذاب نازل ہونے کا ذکر ہے۔
(5) اس بات پر غورکرے اس جرم کاعلم عام لوگو ں کوہوگیا توکس قدر بدنامی ہو گی اور یہ بھی غور کرے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا جرم پوشیدہ نہیں۔
(6) جذبات کی انگیخت کرنے والی کہانیاں اورناول اور اس قسم کی فلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھنے سے اجتناب کرے۔
(7) نفلی روزے زیادہ رکھے۔
(8) اللہ تعالیٰ سے پاک دامنی کی دعا ئیں کرے وغیرہ۔
(4) اگرکوئی شخص اس گناہ میں ملوث ہو چکا ہے لیکن اس کا راز فاش نہیں ہوا اسے سوچنا چاہیےکہ اگراب تک اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا ہےتوکسی موقع پراسے فاش بھی کرسکتا ہے پھر کتنی شرمندگی اورندامت ہوگی اورقیامت کو جب سب کے سامنے یہ راز فاش ہو گا تو کس قدررسوائی ہوگی۔ یہ سوچ کر فوراً توبہ کرے اورمذکورہ بالااحتیاطی تدابیر اختیار کرے۔