تشریح:
فوائد مسائل:
(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے غالباً اس بنا پر بھی کہ دیت قاتل کے عصبہ ادا کرتے ہیں، لہٰذا و ہ مقتول کے عصبہ رشتے داروں کو ملنی چاہیے اور بیوی عصبہ میں شامل نہیں۔
(2) صحیح مسئلہ یہ ہے کہ دیت کی رقم بھی دوسرے ترکے کے حکم میں ہے، لہٰذا جن جن وارثوں کو عام ترکہ ملتا ہے، انہیں اسی حساب سے دیت کی رقم بھی بطور ترکہ ملے گی۔
(3) صحابۂ کرام ؓ سے بھی اجتہاد غلطی ممکن ہے، اس لیے بعد کے علماء وائمہ سے بالاولیٰ غلطی صادر ہوسکتی ہے۔
(4) صحابۂ کرام ؓ حدیث معلوم ہو جانے پر اجتہادی رائے سے رجوع کر لیا کرتےتھے۔ علماء کو یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔