تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) سائل کا سوال خلافت کی وصیت کے بارے میں تھا۔ حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ رسو ل اللہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں فرمائی۔
(2) سائل کا دوسرا سوال ایک اشکال کا اظہار ہے کہ رسول اللہﷺ نے عام مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ہے تو خود بھی وصیت کی ہوگی، خصوصاً خلافت جیسے اہم معاملے میں ضرور فرمایا ہوگا کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہوگا تو جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے پورے قرآن پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ جس میں یہ حکم بھی ہے: ﴿وَاُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء4؍59) ’’ تم (مسلمانوں) میں سے جوصاحب امر ہوں ان کا حکم مانو۔‘‘
(2) حضرت ابوبکر ؓ کی سیرت مبارکہ کا سب سے اہم پہلو اتباع رسول اللہﷺ ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ نبئ کریمﷺ حضرت علی ؓ کو خلیفہ متعین فرمائیں اور حضرت ابوبکر خود یہ منصب سنبھال لیں، بلکہ وہ تو رسول اللہﷺ کے مقرر کئے ہوئے خلیفے کے اطاعت میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتے۔