تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔
(2) جواب دینے سے پہلے تمہید کے طور پر کوئی بات کہنے سے سائل جواب کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتا ہے، جیسے آپ کا یہ فرمانا: ’’میں تجھے ضرور بتاؤں گا۔‘‘
(3) قسم صرف اللہ کی ذات کی کھانا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ ارشاد نبوى ہے: ’’اللہ تعالی تمہیں باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، پس جو شخص قسم کھائے، وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، باب من لم یر إکفار من قال ذلک متأولا أوجاہلاً، حدیث:6108) اس لیے اس حدیث میں’باپ کی قسم‘ سے مراد’باپ کے رب کی قسم ہے۔ عربی زبان میں قرینے کی موجودگی میں الفاظ حذف کردینا عام ہے۔ جیسے(واسئال القریة) ’’بستی سے پوچھیے۔‘‘ (یوسف12؍82) ، یعنی (واسئال اهل القریة) ’’بستی کے باشندوں سے پوچھیے۔‘‘
(4) تاہم ماں اگر کسی ایسے کام کا حکم دے جو شرعاً ممنوع یا مکروہ ہو اور باپ اس غلط کام سے منع کررے تو باپ کا حکم ماننا ضروری ہے اور یہ ماں سے حسن سلوک کے منافی نہیں ۔
(5) صحت کی حالت میں صدقہ زیادہ افضل ہے کیونکہ اس وقت دل میں مال کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے اور اسے خرچ کرنا اس لیے مشکل بھی محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں حالات خراب ہونے کاخطرہ محسوس ہوتا ہے جبکہ موت کے وقت یہ خیال ہوتا ہےکہ اب میں اسے استعمال تو نہیں کرسکوں گا، لہٰذا صدقہ کرکے فائدہ حاصل کرلوں۔ اس وقت دل میں مال کی محبت نہیں رہتی۔
(6) زندگی کے آخری ایا م میں صدقہ کرنا شرعاً درست ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں بھی صدقے کا اہتمام کرنا چاہیے۔