تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) ترکے میں جن رشتے داروں کا حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا دیا ہے انہیں ان کا مقررہ حصہ ضرور ملنا چاہیے۔
(2) جن رشتے داروں کا وراثت میں حصہ نہیں ان کے حق میں مناسب وصیت کرنا بہترہے۔
(3) بعض لوگ یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ لے کر شریعت کے نظام میراث پر اعتراض کرتےہیں، مثلا:ً ایک شخص فوت ہوتا ہے، اس کا ایک بیٹا زندہ ہے، دوسرا بیٹا فوت ہوچکا ہے لیکن اس فوت شدہ بیٹے کا ایک بیٹا جو اب فوت ہونے والے کا پوتا ہے، وہ موجود ہے۔ اصول میراث کے مطابق یہ پوتا محروم ہے کیونکہ قریبی عصبہ کی موجودگی میں دور کا عصبہ رشتے دار محروم ہوتا ہے۔ اس قسم کی انتہائی اور نادر صورتوں کےلیے اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون میں تبدیلی کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ شرعی طور پراس کا حل موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ فوت ہونے والا اپنے غیروارث پوتے کے حق میں کچھ وصیت کرجائے۔ اگر وصیت نہ ہو تو وارثوں کے لےمستحب اور بعض علماء کے نزدیک واجب ہے کہ وارث محروم الارث پوتوں وغیرہ کو وراثت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دیں ۔ قرآن کریم کی آیت: ﴿ وَإِذا حَضَرَ القِسمَةَ أُولُوا القُربى وَاليَتـمى وَالمَسـكينُ فَارزُقوهُم مِنهُ﴾ (النساء:4؍8) ’’ وراثت کی تقسیم کے وقت رشتے دار، یتیم اور مساکین آ حاضر ہوں تو تم مال وراثت میں سے انہیں کچھ دے دو۔‘‘ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اس حکم قرآنی کو محض اخلاقی ہدایت سمجھ کر اپنے نہایت قریبی رشتے داروں (بھتیجوں وغیرہ) کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام کا قانون وراثت تنقید واعتراض کا نشانہ بنتا ہے، حالانکہ اس میں تو ایسی کوئی چیز نہیں جس پر انگشت نمائی کی جا سکے۔اگر چچے، تائے اپنے بھتیجوں وغیرہ کے ساتھ سفقت، ہمدردی اور صلہ رحمی کا معاملہ کریں جیسا کر اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے ایک اسلامی معاشرے میں پوتوں وغیرہ کی وراثت یا عدم وراثت کا مسئلہ زیربحث ہی نہ آئے کیونکہ صلہ رحمی کے اعتبار سے ان کی محرومی وراثت کا ازالہ خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں تعجب کی بات ہے کہ اس قسم کے اعتراضات ان غیر مسلموں کی طرف سے بھی بیش کیے جاتے ہیں جن کے ہاں وراثت کا کوئی اصول و ضابطہ سرے سے موجود ہی نہیں، سوائے اس کے کہ مرنےوالے کا بڑا بیٹا یا بیٹی تمام تر کے کی مالک بن جاتی ہے، خواہ یہ کروڑوں کی جائیداد ہو۔ میت کی باقی اولاد بالکل محروم ہوتی ہے، حالانکہ اولاد ہونے کے لحاظ سے وہ اس کے برابر حق دار ہیں۔ انصاف سے اس قدر بعید رواج پر عمل کرنے والوں کی طرف سے اسلام کے انتہائی عادلانہ نظام وراثت کی ایک شق تلاش کرکے اس پر غلط سلط اعتراض کرنا اور اس طرح پوری شریعت کو ناقابل عمل قرار دینے کی کوشش کرنا معقول طرز عمل نہیں۔ افسوس ہے کہ بعض نام نہاد مسلمان بھی غیر مسلموں سے متاثر ہوکر انہی کی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں اور اپنا ایمان خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔
(4) وارث کے حق میں وصیت سے منع کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اگر وہ وصیت قرآن وسنت کے مطابق ہو تو وصیت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان وارثوں کو شرعاً وہی حصہ ملے گا، خواہ وصیت کی جائے یا نہ کی جائے، اور اگر اس کی وصیت قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اس طرح وہ کالعدم ہے۔
(5) بچہ بستر والے کا ہونے کی وضاحت حدیث:2004 میں گزر چکی ہے۔
(6) نسبی تعلق ایک ناقابل تبدیل تعلق ہے، اسی وجہ سے اسلام کی نظر میں متنبیٰ (منہ بولے بیٹے) کو اصل باپ کی بجائے اپنی طرف منسوب کرنا اور ظہار (بیوی کو ماں بہن قرار دینا) غیر قانونی بلکہ گنا ہ ہے۔
(7) ولاء (آزادی) کا تعلق بھی ناقابل تبدیل ہے، جس نے کسی کو آزاد کیا ہے، اسی کا آزاد کردہ (مولیٰ) کہنا چاہیے۔ آزاد کرنے والے کے احسان کو فراموش کرکے کسی اور کو مولیٰ قرار دینا بہت بڑا گناہے ہے۔