تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ محققین کی تفصیلی بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصوا ب معلوم ہوتی ہے، لہذا مذکورہ روایت اس سند سے ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے، مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد بن حنبل:23؍108، 109، وصحیح سنن ابی داؤد للالبانی، رقم:2573، 2574)2۔ شریعت نے بعض وارثوں کےلیے ترکے میں ایک خاص حصہ مقرر کیا ہے، ایسے وارثوں کو اصحاب الفروض کہتے ہیں۔اصحاب الفروض کو حصے دینے کے بعد جو ترکہ بچے وہ جن رشتہ داروں کو ملتا ہے انہیں عصبہ کہتے ہیں۔
(3) اگر کسی کی ایک ہی بیٹی ہو تو اسے کل ترکے کا نصف حصہ ملے گا۔اگر ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو انہیں کل مال کے تین حصے کرکے ان میں دو حصے دیے جائیں گے۔( دیکھئے: سورۃ النساء، آیت:11) 4۔اگر میت کے وارث بیٹے بھی ہوں اور بیٹیاں بھی تو ان کی تعداد کے مطابق ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔(حواله مذکورہ بالا)
(5) اگر مرنے والے کی اولاد نہ ہو تو ا س کی بیوی کو کل ترکے کا چوتھا حصہ دیا جائے گا اور اگر میت کی اولاد ہوجیسے کہ حدیث میں مذکورہ واقعے میں ہے تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ اگرایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو یہی چوتھا یا آٹھواں حصہ ان سب میں تقسیم کیا جائے گا۔
6 میت کا بھائی عصبہ ہے، اس لیے اصحاب الفروض( بیوی اور بیٹیوں ) کو دے کر جو کچھ باقی بچا، وہ اسے دیا گیا۔7۔ حدیث میں مذکورہ واقعے میں کل مال کے چو بیس حصے کیے گئے جن میں سے تین حصے (کل مال کا آٹھواں حصہ) بیوہ کو ملے اور سولہ حصے (کل مال کی دو تہائی) دونوں بیٹیوں کو (ہر بیٹی کو آٹھ حصے) ملے، باقی پانچ حصے بچے، وہ بھائی کو مل گئے۔