تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اجتہادی مسائل میں اختلاف رائے ہوجاتا تھا لیکن وہ اس کی بنیاد پر باہمی مخالفت اور دشمنی کا رویہ نہیں اپناتے تھے۔
(2) اجتہادی رائے کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی نص قابل عمل ہے۔ اجتہاد کی اہمیت صرف اسی وقت تک ہے جب عالم کو پیش آمدہ مسئلے میں قرآن وحدیث کی نص معلوم نہ ہو۔
(3) دونوں صحابۂ کرام ؓ کی رائے کی بنیاد غالباً اس اصول پر تھی کہ قریب کی موجودگی میں دور کا وارث محروم ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو محروم قراردیا۔ اور بیٹی سے بچا ہوا حصہ بہن کو دلوایا۔
(4) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنی رائے کی بنیاد ارشاد نبوی پر رکھی اور وہ اصول بیان فرمایا جودوسرے صحابۂ کرام ؓ کو معلوم نہ تھا۔
(5) اگر وارث صرف دوبیٹیاں ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہے۔ بیٹیوں کی عدم موجودگی میں پوتیوں کا یہی حصہ ہے۔ جس طرح ایک بیٹی کا حصہ نصف ہے، اسی طرح بیٹی کی عدم موجودگی میں ایک پوتی کا حصہ نصف ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں ایک بیٹی اور ایک پوتی کی صورت میں بیٹی کا حصہ نصف ہے، اور بیٹی اورپوتی کا مجموعی حصہ دوتہائی ہے، لہٰذا دو تہائی میں سے نصف بیٹی کو دے کر باقی چھٹا حصہ پوتی کو ملتا ہے۔
(6) اس صورت میں بیٹی اور پوتی کو برابر حصہ نہیں ملتا کیونکہ ان کا درجہ، یعنی میت سے تعلق برابر نہیں۔
(7) بیٹی، بیٹیوں یا پوتی، پوتیوں کی موجودگی میں بہن عصبہ ہے۔
(8) تقلید سراسر گمراہی ہے، خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے امام یا صحابی ہی کی کیوں نہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهو على شرط البخاري وقول الحكم : " على شرطهما ولم يخرجاه " وهم وقد أخرجه البخاري في " صحيحه " ( 4 / 287 ) مختصرا كما قال المصنف ولفظه : " لأقضين فيها بقضاء النبي ( صلى الله عليه وسلم ) أو قال : قال النبي ( صلى الله عليه وسلم ) : للإبنة النصف ولابنة الابن السدس وما بقي فللأخت " . وهكذا أخرجه إبن الجارود ( 962 ) . وزاد الطيالسي وهو رواية لأحمد والبيهقي : " فأتوا أبا موسى فأخبروه بقول إبن مسعود فقال أبو موسى لا تسألوني عن شئ ما دام هذا الحبر بين أظهركم " . وإسنادهما صحيح . وزاد أحمد من طريق إبن أبي ليلى عن أبي قيس بعد قوله : ( وما أنا من المهتدين ) : " إن أخذت بقوله وتركت قول رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) "