تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لقیط ( گرے پڑے بچے) کے بارے میں اختلاف ہے کہ عورت لاوارث بچے کی وارث ہوگی یا نہیں، تاہم اپنے آزاد کردہ غلام اور لعان کردہ بچے کی وہ خود ہی وارث ہوتی ہے۔ آزاد کردہ غلام کی وراثت سے متعلق دیکھئے، حدیث :2734۔
(2) لعان کردہ بچےسے مراد وہ بچہ ہے جسے منکوحہ عورت سے نے جنم دیا ہو لیکن اس کا خاوند اسے اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار کردے اور قاضی کے سامنے گواہوں اور قسموں کے بعد ایک دوسرے پر لعان کریں۔ اس صورت میں بچے کا تعلق اپنی ماں سے ہوتا ہے، باپ (عورت کے خاوند) سے اس کا تعلق تسلیم نہیں کیا جاتا، اس لیے عورت اپنےاس بچے کی وارث ہوتی ہے۔ (مزید دیکھئے، حدیث :2069)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده فيه ضعف؛ عمر هذا. قال البيهقي: " هذا غير ثابت ".قال البخاري: "عمر بن روبة التغلبي عن عبد الواحد النّصْري؛ فيه نظر ". وقال الذهبي: " ليس بذاك ". وقال الخطابي: " وهذا الحديث غير ثابت عند
أهل النقل ") . إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي: ثنا محمد بن حرب: حدثني عمر ابن روبة التغلبي...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال البخاري؛ غير عمر بن روبة، وقد اختلفوا فيه؛ فوثقه دحيم وابن حبان، وضعفه من ذكرنا آنفاً، وقال ابن عدي: " أحاديثه ليست بالكثيرة، وإنما أنكروا أحاديثه عن عبد الواحد النصري ". وهذا كأنه يعني التفريق بين ما رواه عن عبد الواحد- فهو منكر-، وما رواه عن غيره- فيقبل-، ولعله القول الأعدل. والله أعلم.
والحديث مخرج في "الإرواء" (1576) برواية بقية الأربعة وغيرهم، إلا النسائي؛ فإنه أخرجه في "فرائض الكبرى"- كما في "تحفة الأشراف " (9/78) -