تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ سنن بیہیقی کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے صحیح حسن اور قوی قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: ٢٩/ ٤٧٣ وصحيح سنن ابن ماجة، للألباني رقم :2409 و سنن ابن ماجة، بتحقيق الدكور بشار عواد حديث: 2954)
(2) اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ چادر اس انداز سے اوڑھی جائے کہ دائیں بازو کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالی جائے۔
(3) اضطباع صرف طواف قدوم میں مسنون ہے۔ طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے وقت دونوں کندھے ڈھانک لینے چاہییں۔
(4) رمل اور اضطباع صرف مردوں کے لیے مشروع ہیں عورتوں کے لیے نہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وقال الترمذي: " حسن صحيح ") .
إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان عن ابن جريج عن ابن يعلى عن يعلى.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات ، غير ابن يعلى، فهو غير معروف عندي.وأبوه يعلى- وهو ابن أمية- له من الأولاد: صفوان ومحمد وعثمان وعبد الرحمن، وكلهم روى عنه، ولذلك قال الحافظ: يحتمل أن يكون هو صفوان ".
وأما الجزم بأنه صفوان- كما فعل بعض الشراح-؛ فمما لا دليل عليه!على أن ابن جريح مدلس، وقد عنعنه، وقد أدخل بعض الرواة بينه وبن ابن يعلى: عبد الحميد بن جبير كما يأتي.لكن الحديث يشهد له الحديث الآتي بعده؛ فهو به حسن.والحديث أخرجه أحمد (4/223 و 224) : ثنا وكيع قال: ثنا سفيان... به.وأخرجه الترمذي (859) ، وابن ماجه (2/223) من طرق أخرى عن سفيان عن عبد الحميد عن ابن يعلى... به.وهو رواية لأحمد (4/222) ؛ ولكنه قال. عن رجل.. لم يقل: عبد الحميد.وقال الترمذي:" لا نعرفه إلا من حديث الثوري عن ابن جريج، وهو حديث حسن صحيح،وعبد الحميد: هو ابن جبير بن شيبة عن ابن يعلى عن أبيه؛ وهو يعلى بن أمية ".