تشریح:
(1) تمام اوقات سے مراد یہ ہے کہ خواہ باوضو ہو یا نہ ہوں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔ یعنی زبانی ذکر کے لیے طہارت کا وہ اہتمام ضروری نہیں جو نماز وغیرہ کے لیے ضروری ہے۔ تمام اوقات کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح نماز کے لیے بعض اوقات مکروہ ہیں اللہ کے ذکر کے لیے اس طرح کوئی وقت مکروہ نہیں۔
(2) بعض علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ تلاوت قرآن مجید کے لیے جس طرح حدث اصغر سے پاک ہونا یعنی باوضو ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح حدث اکبر یعنی جنابت سے پاک ہونا بھی شرط نہیں ۔ کیونکہ قرآن مجید بھی ذکر ہے۔ لیکن اولاً تو اللہ کے ذکر کا متبادر مفہوم سُبْحَانَ اللهِ ،اَلحَمدُلِلهِ وغیرہ جیسے اذکار ہیں جن کے زبان سے ادا کرنے کو تلاوت قرآن نہیں سمجھاجاتا۔ ثانیاً حالت جنابت میں تلاوت ممنوع ہونے کی متعدد احادیث مروی ہیں۔ جو اگرچہ الگ الگ ضعیف ہیں لیکن علماء کے ایک گروہ کے نزدیک باہم مل کر وہ قابل استدلال ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کا ضعف شدید نہیں اس لیے ان کے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ جنابت کی حالت میں تلاوت سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے الا یہ کہ کوئی ناگزیر صورت پیش آجائے۔لیکن علماء کا ایک دوسرا گروہ جس میں امام بخاری ؒ امام ابن تیمیہ ؒ اور امام ابن حزم ؒ جیسے حضرات بھی شامل ہیں کہتا ہے کہ ممانعت کی تمام احادیث ضعیف ہیں، اس لیے جنبی اور حائضہ بھی قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 690 :
أخرجه مسلم ( 1 / 194 ) و أبو داود ( 1 / 4 ) و الترمذي ( 2 / 244 طبع بولاق )
و ابن ماجه ( 1 / 129 ) و كذا أبو عوانة في " صحيحه " ( 1 / 217 ) و البيهقي
( 1 / 90 ) و أحمد ( 6 / 70 ، 153 ) من طريق يحيى بن زكريا بن أبي زائدة عن
أبيه عن خالد بن سلمة عن عبد الله البهي عن عروة عن عائشة مرفوعا .
و قال الترمذي : " حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن زكريا بن أبي
زائدة " .
قلت : بلى قد تابعه الوليد بن القاسم بن الوليد الهمداني ، و هو ثقة حسن الحديث
إذا لم يخالف .
أخرجه الإمام أحمد ( 6 / 278 ) : حدثنا الوليد حدثنا زكريا قال : حدثنا خالد
ابن سلمة ، به .
و فيه فائدة هامة و هي تصريح زكريا بسماعه من خالد ، فإنه قد قيل فيه : إنه
يدلس عن الشعبي ، و بعضهم كأبي داود و غيره أطلق و لم يقيده بالشعبي .
و الله أعلم .
و في " العلل " ( 1 / 51 ) : " سألت أبا زرعة عن حديث خالد بن سلمة ...
( فذكره ) ؟ فقال : ليس بذاك ، هو حديث لا يروى إلا من هذا الوجه .
فذكرت قول أبي زرعة لأبي رحمه الله ؟ فقال : الذي أرى أن يذكر الله على الكنيف
و غيره على هذا الحديث " .
قلت : فقد اختلف الإمامان أبو زرعة و أبو حاتم في هذا الحديث ، فضعفه الأول ،
و صححه الآخر ، كما يدل عليه احتجاجه بالحديث و عدم موافقته على قول أبو زرعة ،
و ذلك عجيب منه ، فقد ذكروا في ترجمة البهي عنه أنه قال :
" لا يحتج به و هو مضطرب الحديث " .
و الحق أن الحديث قوي لم يتكلم فيه غير أبي حاتم و قد صحح الحديث مسلم و وثق
البهي ابن سعد و ابن حبان .
و في الحديث دلالة على جواز تلاوة القرآن للجنب لأن القرآن ذكر ( و أنزلنا إليك
الذكر ... ) فيدخل في عموم قولها " يذكر الله " .
نعم الأفضل أن يقرأ على طهارة لقوله صلى الله عليه وسلم حين رد السلام عقب
التيمم :
" إنى كرهت أن أذكر الله ألا على طهارة " .
أخرجه أبو داود و غيره و هو مخرج في " صحيح أبي داود " رقم ( 13 ) .
صحيح أبي داود (14)