تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے مگر اس وقت جب کافی روشنی ہوجائے۔
(2) مسلمانوں کی عبادتیں غیر مسلموں سے مختلف ہیں حتی کہ جوعبادتیں مشترک ہیں ان میں طریق کار میں فرق کردیا گیا ہے۔
(3) جب مشترک عبادتیں بھی مختلف کردی گئیں ہیں تو ان تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونا کیسے جائز ہوسکتا ہےجو خالص غیر مسلم اور رسمی تہواریں ہیں مثلاً: کرسمس نیا عیسوی سال نوروز، بسنت، دیوالی، میلے ٹھیلے وغیرہ نیز شادی غمی کی وہ رسمیں جو غیر مسلموں میں رائج ہیں مثلاً سالگرہ، برسی، کسی کی وفات پر سیاہ لباس پہننا چراغاں منگنی اور شادی کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور آپس میں ہنسی مذاق، مہندی لیکر اس پر شمعیں جلانا اور عورتوں کا راستوں میں ناچتے ہوئے گاتے ہوئے مہندی لیکر چلنا۔ یہ سب کافروں بالخصوص ہندؤں کی رسمیں ہیں جن کے متعلق دینی غیرت و حمیت رکھنے والا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہاں! اگر دینی غیرت ہی ختم ہوجائے تو پھر اور بات ہے۔ بنا بریں ایسی خرافات سےتمام مسلمانوں کو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وأخرجه البخاري. وقال الترمذي: " حسن صحيح ") . إسناده: حدثنا ابن كثير: ثنا سفيان عن أبي إسحاق عن عمرو بن ميمون قال: قال عمر بن الخطاب ...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وأبو إسحاق- وهو السبيعي- وإن كان اختلط؛ فقد سمع منه سفيان- وهو الثوري- قبل الاختلاط، وقد صَرحَ
في رواية شعبة الآتية بالتحديث. والحديث أخرجه الطحاوي (1/413) ، وأحمد (1/29 و 39 و 42 و 54) من
طرق أخرى عن سفيان ... به؛ وزاد في رواية. وكانوا يقولون: " أشرق ثَبِير! كيما نُغِير ". وتابعه شعبة عن أبي إسحاق قال: سمعت عمرو بن ميمون... به: أخرجه البخاري (3/418) ، والنسائي (2/48- 49) ، والطيالسي (1/222) ، وعنه
الترمذي (896) ، وكذا البيهقي (5/124) ، وأحمد (1/14 و 50) . ورواه الدارمي (2/59) ، وابن ماجه (2/241) ، والطحاوي من طريقين آخرين عن أبي إسحاق.