تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہےاور مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بناء پر قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 24/ 102، 103 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عوادحديث: 3116)
(2) اسلام سے پہلے لوگ اللہ کی رضا کے لیے کعبے میں سونا چاندی اور نقد رقم بھیجتے تھے۔ اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس سے کعبہ شریف کے متعلق اخراجات پورے ہوتے تھے اور ضرورت سے زائد مال جمع رہتا تھا۔ (نيل الاوطار:٦/ ٣٦)
(3) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تیری قوم نئی نئی کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اس کا دروازہ زمین پر بناتا اور اس میں حطیم کا حصہ شامل کردیتا۔ (صحيح مسلم، الحج، باب نقض الكعبة وبنائها، حديث:١٣٣٣) اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائےصحیح ہے۔ ممکن ہے انھیں یہ حدیث نہ پہنچی ہو اس لیے حضرت شیبہ کی رائے کو قبول کرلیا۔
(4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غریب مسلمانوں کا بہت احساس تھا مسلمان حکمرانوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(5) حضرت شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز کی سختی سے مخالفت کی کیونکہ وہ دلیر اور سچے لوگ تھے اور ام المونین تنقید برداشت کرنے والے تھے۔
(6) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد وعمل سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں اگر محسوس کرتے کہ ان کی رائے غلط ہے تو فوراً رجوع فرما کر صحیح بات تسلیم کرلیتے تھے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه البخاري) .
إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي عن
الشيباني عن واصل الأحدب عن شَقِيق عن شيبة- يعني: ابن عثمان-.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وأخرجه البخاري كما يأتي.
والشيباني: هو سليمان بن أبي سليمان أبو إسحاق الكوفي.
والمحاربي قال أحمد: " كان يدلس "؛ لكنه قد توبع.
وواصل: هو ابن حَيَّان.
والحديث أخرجه ابن ماجه (2/269) : حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة: ثنا
المحاربي... به أتم منه، وقال في آخره:
فلم يحركاه، فقام كما هو، فخرج.
ولم أر الحديث في "المسند" من طريق المحاربي! وإنما عن سفيان الثوري، فقال
(3/410) : ثنا وكيع: ثنا سفيان عن واصل الأحدب... به: ثنا عبد الرحمن
عن سفيان... به.
وأخرجه البخاري (13/212) من طريق أخرى عن عبد الرحمن... به. وقال
الحافظ:
" وعبد الرحمن: هو ابن مهدي. وسفيان: هو الثوري ".
وتابعه خالد بن الحارث: حدثنا سفيان... به نحوه.