تشریح:
(1) کھلی جگہ پیشاب کرتے ہوئے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ پردہ درخت دیوار وغیرہ سے بھی ہوسکتا ہے اور اپنے پاس موجود کسی چیز سے بھی کیا جاسکتا ہے جیسے آپ ﷺ نے ڈھال کو پردے کے طور پر استعمال فرمایا۔
(2) بے پردگی اور بے حیائی غیر مسلموں کی عادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی شرم وحیا اور عفت پر طعنہ زنی کرتے ہیں تاکہ مسلمان بھی ان کی سی عادت واطوار اختیار کرلیں۔ لیکن سچے مسلمان کو ان کے طعنوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان پر واضح کرنا چاہیے کہ تمھارا رسم ورواج اور تمھارے طریقے غلط اور قابل ترک ہیں
(3) یہود و نصاری میں بھی اصل شریعی حکم شرم وحیا، پردہ اور طہارت و پاکیزگی کے اہتمام کا ہے۔ موجودہ تہذیب کے مظاہر خود ان کی شریعت اور ان کے انبیائے کرام علیہ السلام کی سیرت کے خلاف ہیں۔
(4) گناہ کی طرف دعوت دینا یا نیکی اور اچھائی سے منع کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ جس کی سزا قیامت سے پہلے قبر میں بھی مل سکتی ہے۔
(5) اس سے عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے۔
(6) (إِذَا أَصَابَهُمْ الْبَوْلُ قَرَضُوهُ بِالْمَقَارِيضِ) جب ان کو پیشاب لگ جاتا تو قینچیوں سے کاٹ دیا کرتے تھے اس میں ابہام ہے کہ کس چیز کو کاٹتے تھے؟ ابوداؤد کی ایک روایت میں (جلد) چمڑے کے الفاظ ہیں اور ابوداؤد ہی کی ایک دوسری روایت میں (جسد) جسم کا ذکر ہے۔ جسد کے لفظ کو شیخ البانی ؒ نے منکر کہا ہےاور جلد سے مراد چمڑے کا لباس لیا ہے جو پہنا جاتا ہے۔ اس طرح کاٹی جانی والی چیز جسم کا حصہ نہیں بلکہ لباس (کپڑا یا چمڑا) ہوتا تھا جسے پیشاب لگ جاتا تھا، صحیح بخاری کی روایت سے بھی اسی باب کی تائید ہوتی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں: (إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ اَحَدِهِم قَرَضَهُ) (صحيح البخاري، حديث:٢٢٦) جب ان میں سے کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ اسے کاٹ دیتا تھا-