تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے اور اس پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے حدیث کے حسن ہونے والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ .واللہ أعلم۔ مزید تفصیل لے لیے دیکھیے ۔ (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد:37/ 123، 125، وصحيح سنن أبي داؤد للألباني (مفصل) 5/ 366، 369 رقم: 1474، 1476) بنا بریں پانی پلانا بڑی نیکی ہے، خواہ وہ نلکا لگوانے یا کنواں کھدوانے کی صورت میں ہو یا کولر لگا دیا جائے یا گھڑے میں پانی پھر کر رکھ دیا جائے یا نلکے سے گلاس بھر کر كسی کو لا دیا جائے۔ اپنے اپنے موقع محل کے مطابق یہ سب صورتیں نیکی میں شامل ہیں۔
(2) جب ضرورت سے زائد پانی موجود ہو تو ضرورت مند کو وہ پانی لینے سے منع کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(3) پانی استعمال کرنے والوں کو چاہیے کہ اسے ضائع نہ کریں، جیسے بعض دفعہ ایک آدمی آدھا گلاس پانی پینا چاہتا ہے تو پہلے گلاس کو دھوتا ہے، خواہ وہ بالکل صاف ہو، پھر گلاس بھر کر پانی لیتا ہے اور آدھا گلاس پی کر باقی گرادیتا ہے۔ یا وضو کرنے میں اتنا پانی استعمال کرتا ہے جس سے کئی آدمی وضو کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کی نعمت کی نا شکری ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده مرسل صحيح؛ سَعِيدٌ : هو ابن المسيَّبِ، وسَعْدٌ هو ابن
عبادة. وقد روي مسنداً عنه، وهو الآتي بعده) .
إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا همام عن قتادة عن سعيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ لكن ظاهره
الإرسال؛ لأن الإسناد انتهى إلى سعيد- وهو ابن المسيَّبِ-، ولم يسنده، ولو
أسنده عن سعد- وهو ابن عبادة- كما في الرواية الآتية؛ فهو منقطع؛ لأن سعيداً
لم يدرك سعد بن عبادة، كما قال المنذري.
والحديث أخرجه الحاكم (1/414) من طريقين آخرين عن محمد بن
كثير... به، وقال:
" صحيح على شرط الشيخين "! وردَّهُ الذهبي بقوله:
" قلت: لا؛ فإنه غير متصل ".