تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) علم نجوم سے مراد ستاروں کا ایسا علم ہے جس سے لوگ اپنے خیال میں قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں یہ ممنوع ہے۔
(2) بعض لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ بارہ برجوں میں سے فلاں برج کے ایام میں پیدا ہونے والا بچہ فلاں فلاں خصوصیات کا حامل ہوتا، اور فلاں برج والا فلاں فلاں خوبیوں سے متصف ہوتا ہے۔ یہ بھی جاہلی تہمات ہیں جن کو بعض لوگ ’’علم‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
(3) ہاتھ کی لکیروں سے قسمت کا حال بتانے والے بھی ہاتھ کے مختلف حصوں کو مختلف ستاروں کی طرف منسوب کرتے اور اس بنیاد پر پیشگوئیاں کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ ان سب سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(4) ستاروں کے طلوع وغروب سے وقت کا اندارہ لگانا یا چاند کی رفتار سے مہینے کے انتیس یا تیس دن کے ہونے کا اندازہ کرنا اور سفر کے دوران میں ستاروں سے سمت کا تعین کرنا ممنوع علم نجوم میں شامل نہیں۔
(6) ستاروں کے قسمت پر اثر انداز ہونے کے تصور کو ’’جادو‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ بھی جادو کی طرح حرام ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 435 :
رواه أبو داود ( 3905 ) و ابن ماجه ( 3726 ) و أحمد ( 1 / 227 ، 311 ) و الحربي
في " الغريب " ( 5 / 195 / 1 ) عن عبيد الله بن الأخنس عن الوليد بن عبد الله
عن يوسف بن ماهك عن ابن عباس مرفوعا .
قلت : و هذا إسناد جيد ، رجاله كلهم ثقات ، و عبيد الله بن الأخنس وثقه أحمد
و ابن معين و أبو داود و النسائي و ابن حبان إلا أنه قال " يخطىء كثيرا " ! فما
أرى أن يعتد بقوله هذا كثيرا !