تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) ذکر کےلیے بیٹھنے والوں سے مراد مسنوں انداز سے ذکر کرنے والے ہیں، مثلاً: نماز سے فارغ ہو کر مسنون اذکار میں مشغول افراد یا وعظ ودرس قرآن و حدیث کی مجلس یا آپس میں اللہ کی نعمتوں کا ذکر تا کہ دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہو۔
(2) خود ساختہ الفاظ کے ساتھ، خود ساختہ طریقوں سے ذکر کرنا خلاف سنت ہے، جیسے روشنیاں بجھا کر اجتماعی طور پر ذکر کرنا، بالخصوص الفاظ کی ضربیں لگانا، یا ایسی دعاؤں کو اہمیت دینا جو نبی ﷺ سے منقول نہیں، مثلاً: درود تاج، درود ماہی، کیفیت ہیکل، شش قفل وغیرہ۔ ایسی چیزوں سے ثواب کی بجائے گناہ کا اندیشہ ہے۔
(3) فرشتے نیکی کی مجلس میں شریک ہوتے ہیں۔
(4) سکینت سے مراد دل میں اطمینان و سکون اور خوشی کی خاص کیفیت ہے جو ذکر کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔
(5) فرشتوں میں ذکر فرمانے کا مقصد اس عمل پر خوشنودی کا اظہار ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 115 :
و السياق لابن ماجه ، و رواه الترمذي قبل حديث الباب بحديثين و قال :
" حسن صحيح " . ، و قوله : " مثله " . فالله أعلم .
فإني في شك من ثبوت ذلك عن الترمذي و إن كان ورد ذلك في بعض نسخ كتابه .
فقد أورد السيوطي في " الجامع الصغير " هذا الحديث من رواية الترمذي ،
و ابن ماجه عن أبي هريرة و أبي سعيد معا .
و في عزوه لابن ماجه نظر أيضا ، فإني لم أجد عنده إلا اللفظ الثاني الذي رواه
مسلم . و العلم عند الله تعالى .
و لم يقع في نسخة " السنن " التي عليها شرح " تحفة الأحوذي " سوق هذا الإسناد
الثاني عقب حديث الباب .
و لهذا اللفظ عنده طريق أخرى عن أبي هريرة مرفوعا بلفظ :
" .... و ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ، و يتدارسونه
بينهم ، إلا نزلت عليهم السكينة ... " و الباقي مثله .
و صالح مولى التوأمة الذي في اللفظ الأول ضعيف لاختلاطه ، و لكنه لم يتفرد به
بل تابعه جماعة منهم : أبو صالح السمان ذكوان بلفظ :
" ما قعد قوم مقعدا لم يذكروا فيه الله عز و جل ، و يصلوا على النبي صلى الله
عليه وسلم ، إلا كان عليهم حسرة يوم القيامة ، و إن دخلوا الجنة للثواب " .