تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا چا ہیے۔ حسن ظن کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ نیک اعمال کیے جائیں اور ان کی قبولیت کی امید رکھی جائے۔ گناہوں سے توبہ کی جائے اور بخشش کی امید رکھی جائے۔ گناہوں کے راستے پر بھاگتے چلے جانا اور اللہ کی رحمت کی امید رکھنا نادانی ہے۔
(3) اس میں بالواسطہ عمل کی تلقین ہے کیونکہ عمل کے بغیر کی امید نہیں رکھی جا سکتی، لہٰذا اچھے عمل کرنے والا ہی اللہ سے اچھی امید رکھ سکتا ہے۔ برے عمل کرنے والا بری امید ہی رکھ سکتا ہے۔
(4) جماعت میں ذکر کرنے سے مراد خود ساختہ اجتماعی ذکر نہیں بلکہ یا تو یہ مراد ہے کہ جیسے نماز کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر مسنون دعائیں اور اذکار پڑھتے ہیں یا اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر ہے، یعنی ایک شخص بیان کرے اور دوسرے سنتے رہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 5 / 359 :
أخرجه أحمد ( 3 / 478 ) عن أبي وائل عن سريج قال : سمعت رجلا من أصحاب النبي
صلى الله عليه وسلم يقول : قال النبي صلى الله عليه وسلم : فذكره . قلت : و
هذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات رجال مسلم غير سريج ، كذا وقع في الأصل بالسين
المهملة و الجيم في آخره ، و هو تصحيف ، و الصواب " شريح " بالمعجمة و بالمهملة
آخره ، و هو ابن الحارث بن قيس النخعي الكوفي ، ثقة مخضرم . و للحديث شواهد
صحيحة من حديث أبي هريرة و أنس بن مالك و أبي ذر الغفاري و أبي سعيد الخدري .
1 - أما حديث أبي هريرة ، فأخرجه أحمد ( 2 / 251 ، 413 ، 480 ، 482 ، 500 ، 509
، 524 ، 535 ) و البخاري ( 4 / 452 ، 453 ) و مسلم ( 8 ، 62 ، 63 / 67 ، 91 ) و
الترمذي ( 2 / 280 ) و صححه ، و ابن ماجة ( 3822 ) .
2 - و أما حديث أنس ، فأخرجه أحمد ( 3 / 122 ، 127 ، 130 ، 138 ، 272 ، 283 ) و
البخاري ( 4 / 494 ) .
3 - و أما حديث أبي ذر ، فأخرجه أحمد ( 5 / 153 ، 169 ) و مسلم ( 8 / 67 ) و
ابن ماجة ( 3821 ) و مضى لفظه و تخريجه أيضا برقم ( 581 ) .
4 - و أما حديث أبي سعيد الخدري ، فيرويه عطية عنه . أخرجه أحمد ( 3 / 40 ) .