تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) نیک آدمی کی عدم موجودگی میں بھی اسی کی تعریف کی جاتی ہے اور یہ باتیں اس کے کانوں تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔
(2) جب کسی کو معلوم ہو کہ لوگ اس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں تو اسے چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور نیکی کے راستے پر قائم رہنے کی اور زیادہ کوشش کرے اور اللہ سے استقامت کی دعا کرے۔
(3) جب کسی کو معلوم ہو کہ لوگ اس کے بارے میں بری رائے رکھتے ہیں تواسے چاہیے کہ توبہ کرے اور اپنی اصلاح کرے تاکہ اس کے گزشتہ گناہ معاف ہوجائیں اور آئندہ نیکی کی توفیق ملے۔
(4) سامنے کی تعریف کا اعتبار نہیں کیونکہ لوگ خوشامد کے طور پر بھی تعریف کرتے ہیں-
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 320 :
أخرجه ابن ماجة ( 4224 ) و الطبراني في " المعجم الكبير " ( رقم - 12787 )
و أبو نعيم في " الحلية " ( 3 / 80 ) و البيهقي في " الشعب " ( 2 / 342 / 1 )
من طريق أبي هلال حدثنا عقبة بن أبي ثبيت عن أبي الجوزاء عن ابن عباس قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( فذكره ) .
قلت : و هذا إسناد حسن رجاله ثقات و في أبي هلال - و اسمه محمد بن سليم الراسبي
- كلام لا ينزل به حديثه عن رتبة الحسن ، و قال الحافظ فيه : " صدوق فيه لين "
. و منه يتبين تساهل البوصيري حين قال في " الزوائد " ( ق 285 / 2 ) : " هذا
إسناد صحيح رجاله ثقات " ! نعم الحديث صحيح ، فإن له شواهد كثيرة منها عن أنس
مرفوعا نحوه . أخرجه البزار ( ص 326 زوائد ابن حجر ) و الحاكم ( 1 / 378 ) من
طريقين عن ثابت عنه . و قال الحاكم : " صحيح على شرط مسلم " . و وافقه الذهبي ،
و هو كما قالا. و إن أعله ابن أبي حاتم ( 2 / 232 - 233 ) بالإرسال . و منها عن
أبي هريرة و غيره و قد مضى برقم ( 1327 ) .