تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) بعض گناہ عام لوگوں کی نظر میں معمولی ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ بڑے ہوتے ہیں۔ مثلاً گالی گلوچ، ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا، مرد کا اپنی شلوار تہ بند اور پاجامہ وغیرہ سے ٹخنوں کو چھپا لینا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنا تہہ بند آدھی پنڈلی تک اونچا رکھنا، اگر یہ نہ ہوسکے تو ٹخنوں تک ضرور اونچا رکھنا اور تہہ بند کو (ٹخنوں سے نیچے تک) لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر ہے۔۔۔‘‘ (سنن أبي داؤد، اللباس، باب ماجاء فی إسبال الإزار، حدیث: 4084)
(2) جو گناہ معاشرے میں عام ہوجائے۔ عوام کی نظر میں وہ گناہ نہیں رہتا۔ خواہ کبیرہ ہی ہو۔ علماء کو چاہیے کہ ایسے گناہوں سے خاص طور پر منع کریں۔ اور ان کے بارے میں اسلامی احکام کی وضاحت کریں۔
(3) جو گناہ واقعتاً صغیرہ ہیں۔ ان کے بارے میں بھی احتیاط ضروری ہے۔ کیونکہ صغیرہ گناہ بکثرت کرنے سے مجموعی طور پر گناہوں کی مقدار بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان سزا کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ صغیرہ گناہوں کی پرواہ نہ کرنے سے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے ان سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 26 :
أخرجه الدارمي ( 2 / 303 ) و ابن ماجه ( 4243 ) و ابن حبان ( 2497 ) و أحمد ( 6
/ 70 ، 151 ) و ابن عساكر في " تاريخ دمشق " ( 7 / 176 / 1 ) من طريق سعيد بن
مسلم بن بانك قال : سمعت عامر بن عبد الله بن الزبير قال : حدثني عوف بن
الحارث بن الطفيل عن عائشة قالت : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم
فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله ثقات رجال البخاري غير ابن بانك بموحدة و نون
مفتوحة و هو ثقة كما في " التقريب " .
و الحديث عزاه المنذري ( 3 / 212 ) للنسائي و الظاهر أنه يعني السنن الكبرى له
و إلا فلم أره في " المجتبى " له و هي الصغرى .