تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) مسلمانوں میں اپنے دین کی غیرت مطلوب ہے۔ لیکن اس کا اظہار ایسے انداز سے ہوجس سے کسی دوسرے نبی کی تحقیر نکلتی ہو توجائز نہیں۔
(2) صحابی نے یہودی کو اس لئے تھپڑ مارا تھا کہ اس کے کلام سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا اشارہ ملتا تھا۔ اور یہ حرکت ناشائستہ تھی۔
(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جزوی افضیلت کا ذکر اس لئے فرمایا گیا کہ سچی بات بھی اس انداز سے نہیں ہونی چاہیے۔ جس سے غلط مفہوم سمجھے جانے کا اندیشہ ہو۔
(4) قیامت کے حالات غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے جتنی بات نبی کریمﷺ کو بتائی گئی۔ آپﷺ کو معلوم ہوگئی۔ اورجو نہیں بتائی گئی۔ وہ معلوم نہیں ہوئی۔ اس لئے نبی کریمﷺ کے لئے کلی علم غیب کا عقیدہ درست نہیں۔
(5) عرش اللہ کی مخلوق ہے۔ جس کے پائے ہیں۔ قیامت کے دن اسے سب دیکھیں گے۔ اور بعض خاص نیکیوں کے عامل اس کے سائے میں محشر کی شدتوں سے محفوظ ہوں گے۔
(6) صور کی آواز سے جو لوگ بے ہوش نہیں ہوں گے۔ ان کی وضاحت حدیث میں نہیں اس میں اپنی طرف سے رائے زنی مناسب نہیں۔
(7) مذکورہ حدیث میں صور میں پھونکنے کی بابت یہ مروی ہے کہ صور میں دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے کےدرمیان کتنا فاصلہ ہوگا؟ اس کی بابت حضرت ابو ہریرہ ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دونوں مرتبہ صور پھونکنے میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے کہا: ابو ہریرہ چالیس دن کا؟ انہوں نے کہا میں نہیں کہہ سکتا۔ پھر انہوں نے کہا چالیس برس کا؟ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے کہا چالیس مہینے کا؟ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نہیں کہہ سکتا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کا سارا بدن بوسیدہ ہوجائےگا۔ (گل سڑ جائے گا) مگر ریڑھ کی ہڈی کا سر باقی رہے گا۔ پھر قیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4814)