تشریح:
فوائد ومسائل:
(1) قیامت کے مراحل انتہائی شدید ہون گے لہٰذا ان مراحل میں آسانی کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکییاں کرنےکی اور برائیوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(2) انبیاء کرام پر بھی قیامت کے دن خشیت الہی کی کیفیت کا غلبہ ہوگا اور انھیں اپنی معاف شدہ لغزشیں بھی بڑے گناہوں کی طرح۔ خطرناک محسوس ہوگی۔
(3) لوگ انبیاء کرام کو انکا بلند مقام اور فضائل یاد دلا کر کوشش کریں گے کہ وہ اللہ سے انکی شفاعت کریں لیکن ہر نبی دوسرے نبی کے پاس جانے کا مشورہ دے کر خود شفاعت کرنے سے معذرت کرلے گا۔
(4) شفاعت کبرٰی کا مقام نبیﷺ کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے جب نبیﷺ کو کہا جائیگا تو آپﷺ معذرت نہیں کریں گے۔
(5) آپﷺ کے قلب مبارک میں بھی اللہ تعالی کی عظمت کا احساس پوری طرح موجود ہوگا اس لیے براہ راست اصل مقصود عرض کرنے کی بجائےپہلے سجدہ کرکے اللہ کی حمد و ثناء بیان کریں گے۔
(6) سجدہ بندے کو اللہ کا قرب بخشنے والی عظیم عبادت ہےاور دعا کے آداب میں یہ شامل ہے۔ کہ پہلے حمد و ثناء بیان کی جائےاور درود پڑھا جائے پھر دعا کی جائے۔
(7) رسولﷺ اللہ تعالی سے اجازت طلب کریں گے۔ پھر مقام شفاعت پہ تشریف لے جائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالی مالک الملک اور شہنشاہ ہے۔ اور نبیﷺ اس کے ایک مقرب بندے ہیں جو درخواست پیش کر سکتے ہیں۔ اور قبولیت کی امید رکھ سکتے ہیں لیکن اللہ کے حکم کے برعکس کچھ نہیں کر سکتے۔
(8) رسولﷺ عالم الغیب نہیں تھے اس لیے اللہ کی اس وقت جو تعریفیں کریں گے وہ اسی وقت سکھائی جائیں گی۔ پہلے سے معلوم نہیں ہوگی۔
(9) رسول اللہﷺ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں فرمائیں گے اور جو شفاعت ملے گی وہ بھی لامحدود نہیں ہوگی۔
(10) سب لوگوں کے ایمان برابر نہیں ہوتے بلکہ کم و بیش ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص کے ایمان میں بھی اس کے اعمال کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ جنھیں قرآن نے روک دیا وہ نبی پہ ایمان نہ لانے والے اور شرک اکبر کے مرتکب اعتقادی اور منافق ہے۔ جن پہ جنت حرام ہے۔ ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔