تشریح:
(1) اس حدیث میں جن کاموں سے منع کیا گیا ہے وہ سب حرام ہیں۔
(2) ان اعمال کے مرتکب افراد کو شریعت اسلامی کے ساتھ کفر کرنے والے قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کافروں کے کام ہیں مسلمانوں کو ایسے کاموں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
(3) اللہ نے عورت سے مباشرت کا ایک فطری طریقہ مقرر کیا ہے جس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوتی ہے۔ پاخانے (دبر) کا راستہ اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا ہے یہ غیر فطری طریقہ ہے جس میں حضرت لوط علیہ السلام کی بدکردار قوم سے مشابہت پائی جاتی ہے۔
(4) بعض لوگوں نے عورتوں سے خلاف فطرت فعل کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے اس آیت سے استدلال کیا ہے: ﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ﴾(البقرۃ:2؍223) تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتی (کی طرح) ہیں تم اپنی کھیتی میں آؤ جیسے چاہو۔ ان کا یہ استدلال درست نہیں کیونکہ
(ا) عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کھیت وہی ہوتا ہے جہاں بیج ڈالا جائے تو اگے، پاخانے کا راستہ اس قابل نہیں۔ پیدائش کا تعلق اگلے راستے سے ہی ہے۔
(ب) ایام حیض میں آگے کے راستے سے بھی پر ہیز کا حکم دیا گیا ہےاور وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ نجاست ہے۔ دوسرا راستہ تو صرف نجاست ہی کے لیے ہے وہ کیسے حلال ہوسکتا ہے۔
(ج) اگر ﴿أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ﴾ کا ترجمہ ’’جہاں سے چاہو‘‘ کیا جائے تو بھی اسکا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پیچھے کے رخ سے ہو کر آگے کے مقام میں دخول کرے تو جائز ہے جس طرح براہ راست آگے کے رخ سے دخول جائز ہے جیسے کہ حدیث میں اسکی وضاحت ہے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، النكاح، باب جواز جماعة امرأته في قبلها، من قدامها ومن ورائها، من غير تعرض للدبر، حديث:1435)
5۔ کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب کی باتیں جاننے کا دعوی رکھتا ہے یا مستقبل کے بارے میں بتاتا ہے۔ ہمارے ہاں جو نجوم، رمل، جفر کے نام سے قسمت بتانے کا دعوی کرتے ہیں وہ سب اس وعید میں شامل ہیں۔ ان کی بتائی ہوئی کوئی بات سچ ثابت ہوجائے تو بھی ان لوگوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے پاس جاکر کچھ پوچھنا ہی گناہ ہے اگرچہ ان کی بتائی ہوئی بات پر یقین نہ کرے۔ ارشاد نبوی ہے: جو کسی کاہن کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات پوچھی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، السلام، باب تحریم الکھانة واتیان الکھان، حدیث:2230)
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد صحيح فإن أبا تميمة اسمه طريف بن مجالد وهو ثقة من رجال البخاري وحكيم الأثرم وإن قال البخاري لا يتابع في حديثه يعنى هذا فلا يضره ذلك لأنه ثقة كما قال ابن أبى شيبة عن ابن المدينى . وكذا قال الآجري عن أبى داود . وقال النسائي : ليس به بأس . وذكره ابن حبان في ( الثقات ) ( 2 / 61 ) وسماه حكيم بن حكيم . ونقل المناوي عن الحافظ العراقي أنه قال في ( أماليه ) : ( حديث صحيح لما وعن الذهبي أنه قال : ( إسناده قوي ) . وله طريق ثان : يرويه إسماعيل بن عياش عن سهيل عن الحارث بن مخلد عن أبى هريرة به . أخرجه الطحاوي ( 2 / 25 - 26 ) . قلت : وهذا إسناد ضعيف الحارث هذا مجهول الحال وابن عياش ضعيف في الحجازين وهذا منه فإن سهيلا هو ابن أبى صالح المدنى . طريق ثالث : قال الأمام أحمد ( 2 / 429 ) : ثنا يحيى بن سعيد عن عوف قال : ثنا خلاس عن أبى هريرة والحسن عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : فذكره دون قوله ( حائضا ) . ورواه الحارث بن أبى أسامة في ( مسنده ) ( 2 / 187 / 2 ) : حدثنا روح قال : حدثنا عوف به . دون ذكر الحسن . ومن طريق الحارث رواه أبو بكر بن خلاد في ( الفوائد ) ( 1 / 221 / 1 ) وكذا الحاكم ( 1 / 8 ) وقال : عن ( خلاس ومحمد ) . ثم قال : ( صحيح على شرط الشيخين ) . ووافقه الذهبي . وهو كما قالا
وأخرجه الحافظ عبدالغنى المقدسي في ( العلم ) ( ق 55 / 1 ) عن أحمد منيع ثنا روح به . مثل رواية الحارث ثم قال : ( وهو إسناد صحيح ) . وفيما قاله نظر فإن خلاسا لم يسمع من أبي هريرة كما قال أحمد لكن بعة : متابعة محمد له عند الحاكم وهو محمد بن سيرين تجعل حديثه صحيحا زد على ذلك متابعة أبى تميمة الهجيمى من الوجه الاول . وله شاهد من حديث جابر خرجته في ( تخريج أحاديث الحلال والحرام ) ( 283 ) .
آداب الزفاف (31) ، المشكاة (551)