تشریح:
(1) جو شخص ایام حیض میں مباشرت (صحبت) کرلے اسے چاہیے کہ کفارہ ادا کرے تاکہ اس کا یہ گناہ معاف ہوجائے۔
(2) دینار سونے کا ایک سکہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب میں رائج تھا۔ اس کاوزن ساڑھے چار ماشے (374ملی گرام) ہوتا تھا اس لیے اگر کسی سے یہ کام سرزد ہوجائے تو اسے چاہیے کہ تقریباً ساڑھے چار گرام خالص سونے کی جتنی قیمت بنے اتنی رقم خیرات کرے۔ یہ صدقہ کسی غریب مسکین اور مستحق فرد کود ینا چاہیے۔
(3) شیخ احمد شاکر نے جامع ترمذی کے حاشیے میں صراحت کی ہے کہ دینار یا نصف دینار راوی کا شک نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اختیار ہے کہ خواہ ایک دینار صدقہ کردے یا نصف دینار حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ اس سے انھوں استنباط کیا ہے کہ یہ صدقہ واجب نہیں کیونکہ اگر واجب ہوتا تو یہ نہ کہا جاتا کہ چاہے تو پورا واجب ادا کرے یا آدھا واجب ادا کرے۔
(4) بعض سلف نے ایک دینار اور آدھے دینار کے حکم میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ اگر حیض کے شروع کے ایام ہوں جب خون سرخ ہوتا ہے تو پورا دینار دے اگر آخری ایام ہوں جب خون زردی مائل ہوتا ہے تو آدھا دینار دے۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں اگر طاقت ہوتو پورا دینار ادا کرے تنگ دست ہو تو آدھا دینار صدقہ ادا کردے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسنادها صحيح. وقد أخرجها مسلم وأبو عوانة في صحيحبهما ) .
إسناده: حدثنا الحسن بن عمرو: أنا سفيان- يعني: ابن عبد الملك- عن ابن
المبارك عن معمر عن أيوب عن معاذة العدوية.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير الحسن بن عمرو
- وهو السَّدُوسِيُ البصري-؛ روى عنه جمع من الثقات، وذكره ابن حبان في
الثقات لما. وقال الحافظ في التقريب :
صدوق، لم يصب الأزدي في تضعيفه .
والحديث أخرجه مسلم وأبو عوانة والبيهقي وأحمد من طريق عاصم الأحول
عن معاذة قالت:
سألت عائشة فقلت: ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة؟!
فقالت: أحرورية أنت؟! قلت: لستُ بحروريةٍ؛ ولكتي أسأًل! قالت:
كان يصيبنا ذلك؛ فنؤمر بقضاء الصوم، ولا نؤمر بقضاء الصلاة.
وأخرجه النسائي (1/319) من طريق قتادة عن معاذة... نحوه.صحيح آداب الزفاف (44 و 45)، المشكاة (553) الإرواء (197)