تشریح:
(1) سابقہ شریعتوں میں احکام شریعت محمدی کی نسبت سخت تھے۔ بعض مسائل میں خود یہود نے سختی پیدا کرلی تھی انہی میں طہارت ونجاست کے مسائل بھی تھے۔ چنانچہ یہودی ان ایام میں عورت کو الگ کمرے یا خیمے میں رہنے کا حکم دیتے تھے کیونکہ ان کی رائےمیں وہ جس بستر پر بیٹھ جائے جو کپڑا پہن لے یا جس چیز کو ہاتھ لگادے وہ ناپاک ہوجاتی ہے حتی کہ اگر کوئی شخص اس کے بستر کو چھولے تو وہ بھی ناپاک ہوجاتا ہے اور اسے غسل کرنا پڑتا ہے۔ (دیکھیے: عہد نامہ قدیم، کتاب احبار، باب:15 فقرہ:19 تا 23)
(2) اسلام میں طہارت اور صفائی کی بہت اہمیت ہے لیکن یہود جیسے سخت احکام نہیں اس لیے حیض ونفاس کے ایام میں مباشرت تو جائز نہیں لیکن عورت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا پیار کرنا سب کچھ جائز ہے البتہ مباشرت حرام ہے جیسے کہ گزشتہ ابواب میں بیان ہوا۔
(3) جس شخص کو خطرہ محسوس ہو کہ پیار کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گا اور ممنوع کام کا ارتکاب کر بیٹھے گا تو اسے اس اجازت سے فائدہ اٹھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اس کے لیے بہتر ہے کہ ان ایام میں بیوی سے دور ہی رہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح. وقواه ابن القيم والشوكاني) .
إسناده: حدثنا محمد بن عوف قال: قرأت في أصل إسماعيل بن عياش.
قال ابن عوف: ونا محمد بن إسماعيل عن أبيه: ثني ضمضم بن زرعة عن شريح
ابن عبيد.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات؛ غير محمد بن إسماعيل؛ فقال المصنف:
لم يكن بذاك، قد رأيته ودخلت حمص غير مرة وهو حي؛ وسألت عمرو بن
عثمان عنه ؟ فذمه . وقال أبو حاتم:
لم يسمع من أبيه شيئاً، حملوه على أن يحدِّث فحدث .
قلت: وإنما اعتمدنا في تصحيحه على قول محمد بن عوف: قرأت في أصل
إسماعيل بن عياش . وهذه وجادة صحيحة من ثقة في أصل ثقة؛ وهي حجة
على المعتمد؛ انظر مقدمة ابن الصلاح (ص 169) . وأعله المنذري بقوله:
في إسناده محمد بن إسماعيل بن عياش وأبوه؛ وفيهما مقال ! ورد عليه
ابن القيم، فقال:
وهذا إسناد شامي؛ وأكثر أئمة الحديث يقول: حديث إسماعيل بن عياش
(2/7)
عن الشاميين صحيح؛ ونص عليه أحمد بن حنبل رضي الله عنه . وقال
الشوكاني (1/217) :
وأكثر ما علل به: أن في إسناده إسماعيل بن عياش. والحديث من روايته
عن الشاميين، وهو قوي فيهم، فيُقْبَلُ .
قلت: وأعله صاحب العون بالانقطاع؛ قال:
لأن ابن عوف ومحمد بن إسماعيل؛ كلاهما لم يسمع من إسماعيل بن
عياش !
وهذا منه بناءً على القول المرجوح في ترك العمل بالوجادة! وليس عليه
العمل؛ وما علومنا وما روايتنا إلا من طريق الوجادة!
ولذلك لم يعلَّ الحديثَ بها: المنذري وابنُ القيم والشوكاني؛ فتنبه صحيح آداب الزفاف (44)