تشریح:
(1) یتیم بچوں کی کفالت ایک عظیم نیکی ہے جس پر جنت میں رسول اللہ ﷺ کا پڑوس ملنے کی بشارت دی گئی ہے۔ کفالت میں جس طرح جسمانی ضروریات خوراک، لباس وغیرہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح روحانی ضروریات یعنی دین کی تعلیم اور اخلاق حسنہ کی تربیت بھی ضروری ہے۔
(2) یہ نبی ﷺ کی حکمت کا کمال ہے کہ جہاں بھی جوہر قابل نظر آیا اس کی صلاحیتوں کو نکھار کر اس سے دین کا کام لے لیا۔ ایک اچھے داعی کو بھی عوام میں جوہر قابل کی پہچان کا ملکہ حاصل ہونا چاہیے اور ایسے افراد کی مناسب تربیت کرکے انھیں اسلام کا خادم بنانا چاہیے۔
(3) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی بلند آواز سن کر یہ فیصلہ کیا کہ اسے مؤذن بنادیا جائے۔ اس طرح نادان بچوں اور غافل نوجوانوں کو بھی قریب کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ان کی اصلاح وتربیت کی جائے تاکہ دوبارہ غلطی نہ کریں اور ان کا کردار بہتر ہوجائے ۔
(5) بچوں کے جسم پر شفقت سے ہاتھ پھیرنا ان کے دل میں محبت پیداکرنا ہے۔ بشرطیکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو جیسے بڑے اور چھوٹے کی عمر میں کافی فرق نہ ہونے کی صورت میں ایسے شکوک وشبہات پیدا ہوسکتے ہیں جن کا نتیجہ الزامات اور بدنامی کی صورت میں نکلا کرتا ہے۔
(6) تربیت میں انفرادی توجہ کی بھی خاص اہمیت ہے تاکہ ہر فرد کی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں۔
(7) بچوں کو حوصلہ افزائی کے لیے مناسب انعام دینا بھی بہت مفید ہے یہ انعام نقد بھی ہوسکتا ہے کسی عام استعما ل کی چیز کی صورت میں اور دعا یا حوصلہ افزائی اور تعریف کے چند کلمات کی صورت میں بھی۔
(8) اگر کسی عہدے کی اہلیت رکھنے والا اس عہدے کی درخواست پیش کرے تو اسے وہ ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے اگر چہ عہدے کا لالچ رکھنا اچھی بات نہیں،
(9) اذان میں شہادتین کے کلمات دودوبار کہنے کے بعد دوسری بار پھر دوبار کہنا ترجیع کہلاتا ہے۔ اور یہ سنت ہے۔ عرف عام میں اسے دوہری اذان کہتے ہیں۔ مؤذن چاہے اکہری اذان (بلا ترجیع) کہ لے، چاہے دہری اذان (ترجیع کے ساتھ) کہہ لے، دونوں طرح جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وقال الترمذي: " حديث صحيح ". ورواه
ابن خزيمة في "صحيحه ") .
إسناده: حدئنا محمد بن يشار: ئنا أبو عاصم: ثنا ابن جريج: أخبرني ابن
عبد الملك بن أبي محذورة- يعني: عبد العزيز- عن ابن محيريز عن أبي محذورة.
قلت: وهذا إسناد حسن إن شاء الله تعالى، رجاله كلهم ثقات رجال
الشيخين؛ غير عبد العزيز بن عبد الملك، وقد ذكره ابن حبان في "الثقات"، وروى
عنه- غير ابن جريج-: ابنه إبراهيم وأبو سعيد محمد بن سعيد الطائفي، وصحح
له الترمذي وابن خزيمة، كما يأتي.
والحديث أخرجه ابن ماجه (1/241- 242) : حدثنا محمد بن يشار ومحمد
ابن يحيى قالا: ثنا أبو عاصم... به أتم منه؛ وزاد في آخره: قال: وأخبرني ذلك
مَن أدرك أبا محذورة على ما أخبرني عبد الاأد بن محيريز.
وكذلك أخرجه الدارقطني (ص 86) ، والبيهقي (1/393) ، وأحمد
(3/409) .
وروراه النسائي (1/103- 104) ، ومن طريقه ابن حزم (3/151) ، والطحاوي
(1/78) دون الزيادة؛ كلهم أخرجوه من طرق عن ابن جريج.
وعنه: أخرجه ابن خزيمة في "صحيحه " كما في "التهذيب " (6/347) .
وأخرجه الترمذي (1/366) من طريق إبراهيم بن عبد العزيز بن عبد الملك بن
أبي محذورة قال: أخبرني أبي وجدي جميعاً عن أبي محذورة.-. به مختصراً.
(2/420)
وكذلك أخرجه الدارقطني والبيهقي من طريق الشافعي عن إبراهيم، فقال
الشافعي: وسمعته يحدث عن أبيه عن ابن محيريز عن أبي محذورة عن النبي
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... معنى ما حكى ابن جريج.
وروى منه البخاري في "أفعال العباد" (ص 76) الترجيع. ثم قال الترمذي:
" حديث صحيح ".
تعليقى على صحيح ابن خزيمة (379) فقه السيرة (202)