تشریح:
(1) ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی وجہ سے احسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الامام احمد بن حنبل:435/34 حديث:20849) وارواء الغليل رقم:227) لہٰذا شواہد کی بناء پر یہ حدیث قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
(2) اذان اس چیز کا اعلان ہے کہ نماز کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ اس لیے اذان اول وقت دینی چاہیے جب کہ اقامت نماز شروع ہونے کی اطلاع ہے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس وقت اقامت کہتے تھے جب رسول اللہ ﷺ تشریف لے آتے۔
(3) اگر امام کو نماز پڑھانے کے لیے آنے میں مقرر وقت سے کچھ تاخیر ہوجائے تو امام کا انتظار کرنا چاہیے۔ جلدی مچانا اور فوراً کسی دوسرے آدمی کو آگے کردینا درست نہیں۔ ہاں اگر معلوم ہو کہ امام صاحب موجود نہیں اور وہ نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں نہیں آئیں گے پھر کسی اور شخص کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔