تشریح:
(1) اس تعمیر سے مراد ان مسجدوں کی اوّلین تعمیر ہے جو آدم علیہ السلام کے ہاتھوں انجام پائی۔ جب حضرت ابراہیم واسماعیل علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کی اس وقت سابقہ تعمیر کے نشان مٹ چکے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں بیت المقدس کی تعمیر بھی اس کی پہلی تعمیر نہیں تھی۔
(2) اس سے ان دو مسجدوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ روئے زمین پر ان دو کے علاوہ صرف مسجد نبوی ہی ایک ایسی مسجد ہے جس کی زیارت کے لیے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے۔ ارشاد نبوی ہے: کجاوے کس کے (بغرض تقرب) سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف، مسجد حرام، میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصی۔ (صحيح البخاري، جزاء الصيد، باب حج النساء، حديث:1864)
(3) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محض زیارت (تقرب) کی نیت سے کسی اور مسجد کی طرف سفر کرکے جانا بھی جائز نہیں تو مزاروں وغیرہ کی زیارت کی نیت سے سفر بالاولی منع ہوگا۔ 4۔قبروں کی زیارت شرعاً جائز ہے لیکن اس کا مقصد آخرت کی یاد اور موت سے عبرت حاصل کرنا ہے۔ یہ مقصد اپنی بستی کے قبرستان کی زیارت سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ خوبصورت گنبدوں، دیدہ زیب عمارتوں، میلوں ٹھیلوں اور نام نہاد عرسوں سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ بالخصوص آج کل کے معروف مزاروں کے عرسوں میں تو چہل پہل کے علاوہ مرد وزن کے اختلاط سے مزید بے شمار مفاسد جنم لے رہے ہیں۔ لہٰذا ان میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے۔
(5) ساری زمین کے مسجد ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا کی تمام مساجد اجروثواب کے لحاظ سے برابر ہیں۔ نماز کے وقت جو مسجد قریب ہو وہاں نماز پڑھ لی جائےاور اگر مسجد قریب نہ ہوتو بھی مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ ممنوع مقامات کو چھوڑ کر کسی بھی پاک جگہ نماز پڑھ لی جاسکتی ہے۔