تشریح:
(1) اس حدیث سے مسئلہ تقدیر کی وضاحت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے، اس لیے مخلوق کے بارے میں اس کا ہر فیصلہ حق ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُم يُسْـَٔلونَ﴾ \(الانبیاء:23) ’’وہ جو کچھ کرے، اس سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا اور ان (مخلوقات) سے سوال کیا جائے گا (اور ان کا مواخذہ ہو گا۔ )‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر اعتراض کرنا درست نہیں کیونکہ اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ حکمت ہماری سمجھ میں بھی آجائے یا ہمیں بتائی بھی جائے۔
(2) جو مصیبت آنی ہے وہ بہرحال آ کر رہے گی، خواہ انسان اس سے ڈرتے ہوئے نیکی کا راستہ چھوڑ کر غلط روی بھی اختیار کر لے۔ اور جو راحت اور نعمت قسمت میں ہے وہ بہرحال ملے گی،اگرچہ اس سے پہلے مشکلات و مصائب ہی کیوں نہ آئیں، اس لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس کی رحمت کی امید رکھنی چاہیے، مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ارشادا لٰہی ہے: ﴿إِنَّهُ لَا يَا۟يـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكـفِرونَ﴾ (یوسف:87) ’’اللہ کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر لوگ ہیں۔‘‘
(3) صحابہ کرام ؓ پختہ اور گہرے علم کے حامل تھے جس کی وجہ سے ان کا ایمان بھی کامل اور قوی تھا۔ تقیر جیسے بظاہر مشکل مسئلے میں انہیں وہ یقین و عرفان حاصل تھا، کس کی وجہ سے وہ اطمینان کی دولت سے مالا مال تھے اور اس بارے میں وہ شکوک و شبہات کا شکار نہیں تھے۔
(4) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک دوسرے کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے علم کا اعتراف کرتے تھے۔ علمائے دین کا بھی ایک دوسرے کےبارے میں یہی رویہ ہونا چاہیے۔
(5) کسی مسئلے میں اطمینان قلب کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ علمائے کرام سے مسئلہ پوچھا جا سکتا ہے۔
(6) صحابہ کرام ؓ کے فتاویٰ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہوتے تھے بلکہ اکثر اوقات وہ ارشاد نبوی ہی نقل کر دیتے تھے، اگرچہ یہ صراحت نہ کریں کہ یہ ارشاد نبوی ہے۔
(7) محدثین کے ہاں یہ اصول ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے تو حدیث کے مرفوع ہونے کی صراحت نہیں کی لیکن حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں۔
(8) تقدیر کا یہ مسئلہ ایمان کے بنیادی مسائل میں سے ہے اور تقدیر پر ایمان لائے بغیر کسی انسان کا ایمان قابل اعتبار نہیں ہوتا، لہٰذا تقدیر کا انکار جہنم کی سزا کا باعث بن جاتا ہے۔