تشریح:
(1) نماز باجماعت بہت ثواب والا عمل ہے اس کے حصول کی کوشش کرنا اچھی بات ہے لیکن اس مقصد کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ گھر سے بروقت روانہ ہوں۔ گھر سے روانہ ہوتے وقت دیر کردینا اور پھر نماز میں ملنے کے لیے بھاگنا درست نہیں۔
(2) اطمینان سے چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اس قدر آہستہ چلے گویا اسے نماز باجماعت کی کوئی پرواہ نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ وقار کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو۔
(3) بھاگ کر جماعت سے ملنے کے ممنوع ہونے میں یہ حکمت ہو سکتی ہے کہ نماز میں ملنے تک سانس نہ پھول جائے کیونکہ اس صورت میں نماز خشوع خضوع اور توجہ سے نہیں ادا کی جاسکے گی۔ واللہ اعلم
(4) جو شخص نماز باجماعت میں اس وقت ملتا ہے جب امام ایک یا زیادہ رکعت ادا کرچکا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ نماز پوری کرنے کے بعد سلام پھیرے۔ علمائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جو رکعتیں امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھی جائیں گی وہ نمازی کی آخری رکعتیں ہوں گی یا ابتدائی رکعتیں؟ اس حدیث میں مذکور الفاظ سے یہ سمجھا جا سکتا ہےکہ امام کے ساتھ پڑھی ہوئی رکعتیں مقتدی کی ابتدائی رکعتیں ہیں صحیح بخاری میں بھی (صحيح البخاري، الأذان باب لا يسعي إلي الصلاة وَلْيَأْتِهَا بالسكينة والوقار، حديث:636) صحیح مسلم میں بھی زیادہ روایات اسی طرح کی ہے البتہ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: (وَاقْضِ مَا سَبَقَكَ) (صحيح مسلم، المساجد، باب استحباب إِتيان الصلاة بوقار و سكينة۔۔۔۔۔، حديث :602) اس سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ بعد میں پڑھی جانے والی رکعتیں اصل میں پہلی رکعتیں ہیں یعنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کی قضاء ہے۔علامہ محمد فواد عبد الباقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے حاشیہ میں فرمایا ہے: یہاں قضاء سے مراد صرف فعل (ایک کام کو انجام دینا) ہے وہ قضاء مراد نہیں جو فقہاء کی اصطلاح ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ میں ہے کہ ( فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰت) (حم السجدة:١٢) (الله تعالی نے انھیں سات آسمان بنا دیا) اور اس آیت میں: (فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ) (البقرة:200) (جب تم اپنے اعمال حج پورے کرلو۔۔۔۔) اور اس آیت میں (فَإِذَاقُضِيَتِ الصَّلٰوةُ) (الجمعه:10) (جب نماز پوری ہوجائے۔) اور جیسے کہا جاتا ہے قَضَيْتُ حَقَّ فَلَانٍ میں نے فلاں کا حق ادا کردیا ان تمام مقامات پر قضاء سے مراد کوئی کام کرنا اور اسے انجام دینا ہے۔ حدیث کی مشہور کتاب بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں امام امیر صنعانی ؒ نے فرمایا: اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ بعد میں آنے والاامام کے ساتھ جو نماز پڑھتا ہے وہ اس کی پہلی رکعتیں ہوتی ہیں یا آخری؟ صحیح بات یہ ہے کہ وہ پہلی ہی ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح. وأخرجه البخاري ومسلم وأبو عوانة في
"صحاحهم ") .
قال أبو داود: " وكذا قال الزبيدي وابن أبي ذئب وإبراهيم بن سعد ومعمر
وشعيب بن أبي حمزة عن الزهري: " وما فاتكم فاتموا ". وقال ابن عيينة عن
الزهري وحده: " فاقضوا "... ".
إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا عنبسة: أخبرني يونس عن ابن شهاب:
أخبرني سعيد بن المسيب وأبو سلمة بن عبد الرحمن أن أبا هريرة قال: سمعت
رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول...
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري؛ إلا أنه إنما أخرج
لعنبسة- وهو ابن خالد بن يزيد الأموي- مقروناً، وقد مرّت ترجمته؛ ولم يتفرد
بالحديث كما يأتي؛ فهو صحيح.
والحديث أخرجه مسلم (2/100) من طريق ابن وهب: أخبرني يونس...
به؛ إلا أنه لم يذكر فيه: سعيد بن المسيب.
ثم أخرجه هو، وأبو عوانة (2/83) ، وابن ماجه (1/260) ، والبيهقي
(2/297) من طريق إبراهيم بن سعد عن الزهري عن أبي سلمة وسعيد بن المسيب... به.
(3/110)
وهكذا أخرجه البخاري (2/92 و 319) ، والطحاوي في "شرح المعاني "
(1/231) ، والطيالسي (رقم 2338) ، وأحمد (2/532) من طريق ابن أبي ذئب قال: حدثنا الزهري... به.
وأخرجه الترمذي (2/149) عن معمر عن الزهري عنهما... مفرقاً.
ومن هذا الوجه: أخرجه أحمد (2/270) عن ابن المسيب وحده.
وأخرجه البخاري (9/312) ، والبيهقي (2/297 و 3/228) - من طريق
شعيب بن أبي حمزة-، والطحاوي، وأحمد (2/270) - عن يزيد بن الهاد-، وهو
أيضا (2/452) - عن عقيل- ثلاثتهم عن الزهري عن أبي سلمة وحده.
وأخرجه النسائي (1/138) ، والترمذي أيضا، وكذا مسلم (2/99) ، والدارمي
(1/293- 294) ، والطحاوي والبيهقي، وأحمد (2/238) من طريق سفيان بن
عيينة عن الزهري عن سعيد بن المسيب وحده... به نحوه.
وقد علَّق المصنف رحمه الله أحاديث هؤلاء كلهم- غير حديث ابن الهاد
وعقيل-، وقد علقه من حديث الزُّبيدي أيضا؛ ولم أجد الأن من وصله!
ومقصوده من هذه التعليقات واضح، وهو بيان أن قول ابن عيينة في هذا
الحديث عن الزهري: " فاقضوا "؛ شاذ أو خطأ؛ لخالفتها لرواية جمهور أصحاب
الزهري الذين قالوا فيه عنه: " فأتموا "؛ وأن هذه اللفظة عي الصواب. وقد نقل
البيهقي عن مسلم أنه قال:
" أخطأ ابن عيينة في هذه اللفظة".
قلت: وكأن فيه إشارة إلى أن الخطأ لفظي ليس معنوياً، وهو كذلك؛ فإن
القضاء هو الأداء في الأصل، بشهادة القرآن فما غير آية، كقوله تعالى: (فإذا
قضيت الصلاة) ؛ قال السندي رحمه الله:
(3/111)
" والفرق بينهما اصطلاح الفقهاء، وهو حادث؛ فلا فرق بين الروايتين ".
فالاختلاف في هذه اللفظة في هذه الرواية وغيرها- كما يأتي- ليس له كبير
شأن؛ فلا حاجة للإطالة.