تشریح:
(1) اس حدیث میں تقدیر الہی کا ثبوت ہے۔
(2) ہر انسان کے انجام کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور یوں جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ مقرر ہے۔
(3) تقدیر علم الہی کا نام ہے، بندے کو مجبور کرنے کا نام نہیں۔
(4) جنت اور جہنم میں داخلے کا تعلق بندوں کے اعمال سے ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قسمت میں کیا ہے، اس لیے نیک اعمال کرنے کی کوشش کرنا اور گناہوں سے بچتے رہنا فرض ہے۔
(5) تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ انسان محنت اور کوشش ترک کر دے بلکہ اسے چاہیے کہ اللہ کے احکام کی تعمیل میں پیش آنے والے خطرات سے خوف زدہ نہ ہو اور مشکلات میں گِھر کر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائے کیونکہ اگر قسمت میں کامیابی لکھی ہے تو وہ ان مشکلات و مصائب کے بعد مل کر رہے گی اور اگر نہیں تو محنت اور نیت کا ثواب تو ضرور ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں فرماتا۔
(6) جو جاہل لوگ فسق و فجور میں مشغول رہتے ہیں اور کہتے ہیں جو تقدیر میں ہے وہی ہو گا، یہ ان کی حماقت ہے بلکہ عمل سعادت و شقاوت کی علامت ہیں، جس کے عمل اچھے ہیں امید ہے کہ وہ سعید ہو گا اور جس کے برے ہیں، اندیشہ ہے کہ وہ شقی ہو گا۔ بہرحال ہر ایک کو اچھے اعمال میں رغبت کرنی چاہیے اور گناہ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر چوری کی حد لگانے لگے، تو وہ کہنے لگا: تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا، میرا کیا قصور ہے۔ آپ نے فرمایا: تقدیر کے مطابق ہی ہم تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔