تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے لیے نماز باجماعت میں حاضری ضروری ہے کیونکہ نفلی نیکی ادا نہ کرنے پر سزا نہیں دی جاتی۔
(2) مجرموں پر اچانک چھاپہ مارنا اور انھیں گھر سے نکلنے پر مجبور کرنا جائز ہے۔
(3) یہ سختی ان لوگوں کے لیے ہے جو بلا عذر جماعت ترک کرتے ہیں کیونکہ بارش وغیرہ کے موقع پر خود رسول اللہﷺ نے مؤذن سے کہلوایا تھا: (اَلَاصَلُّوا فَي الرِّحَالِ) ’’اپنے خیموں یا گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ (صحیح البخاری، الأذان، باب الرخصة فی المعطر والعلة ان يصلي في الرحلة، حديث:666)
(4) رسول اللہ ﷺ نے اس ارادے پر اس لیے عمل نہیں فرمایا کہ گھروں میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں جن پر نماز باجماعت میں حاضری ضروری نہیں۔
(5) اگرچہ نماز با جماعت سے بلا عذر پیچھے رہنا سخت گناہ ہے تاہم جو شخص عذر کی وجہ سے یا بلاعذر پیچھے رہ جائے اس کی نماز اکیلے ہوجائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ایسا شخص ضرور کسی اور شخص کو ساتھ ملا کر جماعت سے نماز ادا کرے البتہ اگر وہ کسی کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرے تو اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت زیادہ ثواب ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة
(2/364)
في "صحاحهم ". وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ") .
إسناده: حدثنا القعنبي: ثنا مالك عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن عمرو
ابن سُلَيْم الزرَقي عن أبي قتادة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرطهما.
والحديث في " الموطأ" (1/176- 177) .
ومن طريقه أيضا: أخرجه محمد في "موطَّئه " (ص 150) ، والبخاري
(1/426) ، ومسلم (2/155) ، وأبو عوانة (1/415) ، والنسائي (1/119) ،
والترمذي (2/129) - وقال: " حديث حسن صحيح "-، والدارمي (1/323) ،
وابن ماجه (1/317) ، والطحاوىِ (1/217) ، وابن حبان (4/90/2488) ،
وأحمد (5/295 و303) ، والخطيب في " تاريخه " (5/236 و 12/318) ؛ كلهم
من طريق مالك... به.
وقد تابعه عن عامر عبد الله بن سعيد. عند البخاري (3/37) .
وعثمان بن أبي سليمان وابن عجلان معاً: عند أبي عوانة، والطحاوي،
وأحمد (5/296 و 305) .
وفليح بن سليمان: عند الدارمي.
ويحيى بن سعيد الأنصاري: عند ابن حبان (2486) ، والطبراني في
"الصغير" (صفحة 76) .
وسهيل بن أبي صالح: عند الطحاوي، والخطيب (3/47) كلهم عن عامر...
به؛ إلا سهيل بن أبي صالح فقال: عن جابر بن عبد الله. قال الخطيب:
" وهو وهم؛ خالف سهيلٌ الناسَ في روايته، والصواب: عن أبي قتادة ".
(2/365)
وذكر نحوه الترمذي، وحكاه عن ابن المديني.
وتابعهم- عند ابن حبان (2490) -: ابنُ جريج عن عامر... به؛ وزاد: " أو يستخبر "!
وهي شاذة؛ تفرد بها ابن جريج؛ مع العنعنة.
وتابع عامراً: محمد بن يحيى بن حَبَّان بلفظ: عن أبي قتادة صاحب رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال:
دخلت المسجد ورسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جالس بين ظهرانَي الناس، قال: فجلست،
فقال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
" ما منعك أن تركع ركعتين قبل أن تجلس؟! ". قال: فقلت: يا رسول الله!
رأيتك جالساً والناس جلوس! قال... فذكره نحوه.
أخرجه مسلم، وأبو عوانة، واحمد (5/305) .
وفيه فائدة عزيزة؛ وهي سبب ورود الحديث.
وللحديث طريق أخرى؛ فقال الحافظ بعد أن ذكر سبب الورود:
" وعند ابن أبي شيبة من وجه آخر عن أبي قتادة: " أعْطُوا المساجد حقها ".
قيل له: وما حقها؟ قال: " ركعتين قبل أن تجلس "... ".
قلت: وقد أخرجه الخطيب (14/440) من طريق عبد الله بن أبي قتادة عن
أبيه مرفوعاً:
" إذا دخلت المسجد؛ فَحَيِّهِ ركعتين قبل الإمام ".
وإسناده ضعيف؛ فيه جماعة لا يعْرَفون.
الروض النضير (1124)