تشریح:
(1) ہمارے فاضل محقق ؒ مذکورہ حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت ہے (653) اس سے کفایت کرتی ہے۔ تفصیل کے لیے حدیث کی تحقیق وتخریج ملاحظہ فرمائیں۔ نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد:255،244،243/24) اس حدیث سے نماز باجماعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی حالانکہ ان کے متعدد عذر موجود تھے:
(ا) وہ معمر تھے۔
(ب) وہ نابینا تھے۔
( ج) ان کا گھر دور تھا۔
(د) ان کے گھر کا کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو انھیں مسجد میں لانے کا فرض مستقل طور پر انجام دے سکے۔
(ھ) جو شخص انھیں مسجد میں لاتا تھا وہ بھی ان کی مرضی کے مطابق خدمت انجام نہیں دیتا تھا بلکہ اپنی سہولت کو زیادہ مد نظر رکھتا تھا۔ (وَلَيْسَ لِي قَائِدٌ يُلَاوِمُنِي) کوئی میری مرضی کے مطابق لانے والا نہیں۔ کا یہی مطلب ہے۔
(د) ان کےگھر اور مسجد کے درمیان نشیبی علاقہ تھا جس میں بارش کے موقع پر پانی جمع ہوجاتا تھا۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: (صلاة الجماعة، أهمتيها وفضلها، تصنیف: ڈاکٹر فضل الہی۔)
(3) رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن مکتوم کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ ثواب ملے۔ اس کا مقصد ترغیب تھا ورنہ نابینا آدمی اگر مسجد میں آنے میں دشواری محسوس کرے تو اسے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ جیسے کہ نبی ﷺ نے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کو اجاذت دےدی تھی۔ دیکھئے: (سنن ابن ماجه حديث:754)
(4) رسول الله ﷺ نے ان سے اذان کے متعلق پوچھا کہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں؟ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص آبادی سے دور قیام پذیر ہو جہاں عام طور پر اذان کی آواز نہیں پہنچتی وہ وہیں نماز ادا کرسکتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وقال النووي: " إسناده صحيح أو حسن ".
ورواه ابن خزيمة في "صحيحه ") .
إسناده: حدثنا سليمان بن حرب: ثنا حماد بن زيد عن عاصم بن بهدلة عن
أبي رَزِين عن ابن أم مكتوم.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير أنه روى
لعاصم مقروناً بغيره؛ وهو حسن الحديث كما سبق.
وأبو رزين: اسمه مسعود بن مالك الآسَدي الكوفي، وقد أنكر ابن القطان
سماعه من ابن أم مكتوم؛ كما في "التهذيب ".
لكن قد ذكر أيضا أن أبا رزين هذا كان غلاماً على عهد عمر، وأن ابن أم
مكتوم مات في آخر خلافة عمر. ومعنى هذا أن أبا رزين قد أدرك ابن أم مكتوم
وهو غلام يعقل؛ فروايته عنه محمولة على الاتصال عند الجمهور؛ فإنكار ابن
القطان لسماعه منه؛ لا ندري ما وجهه؟! فإن ثبت فالإسناد منقطع.
(3/71)
لكن الحديث صحيح على كل حال؛ لما له من الطرق والشواهد، كما يأتي.
والحديث أخرجه ابن ماجه (1/265) - عن زائدة-، وأحمد (3/423) - عن
شيبان- كلاهما عن عاصم... به. وقال النووي في "المجموع " (4/191) - بعد أن
عزاه للمصنف :
" إسناده صحيح أو حسن ".
وأخرجه أيضا الطبراني في "الصغير" (ص 150) ، والحاكم (1/246- 247
و 3/635) ، والبيهقي (3/58) من طرق عن عاصم.
ورواه ابن خزيمة في "صحيحه "، كما في "الترغيب " (1/157) .
وللحديث طريقان آخران:
الأول: أخرجه الدارقطني (ص 146) ، وأحمد (3/423) من طريقين عن
حُصَيْنِ بن عبد الرحمن عن عبد الله بن شداد بن الهاد عن ابن أم مكتوم... به؛ إلا أنه قال:
" أتسمع الإقامة؟ " بدل: " النداء ".
وهذا إسناد صحيح على شرطهما. وقال المنذري:
" إسناده جيد ".
وأخرجه الحاكم من طريق ثالثة عنه؛ وصححه، ووافقه الذهبي.
وأما الطريق الأخرى؛ فتأتي في الكتاب عقب هذا.
وله شاهد من حديث أبي هريرة في "صحيح مسلم " (2/124) ، و "أبي عوانة " (2/6) .
(3/72)
وشواهد أخرى؛ تراجع في "مجمع الزوائد" (2/42- 43) .
صحيح أبي داود ( 562) ، الإرواء (2 / 247) ، الروض النضير (755)