تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) (لایعوی) کا مطلب ہے کہ جانور (کتے یا بھڑیے وغیرہ) کی طرح آواز نہ نکالے۔ یہ لفظ بھی صحیح سند سے مروی نہیں لیکن بحیثیت مجموعی حدیث کامفہوم صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
(2) جمائی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ نامناسب آواز نہ نکلے ارشاد نبوی ہے۔ ’’جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ اسے جہاں تک ہوسکے ر وک دے کیونکہ جب وہ (جمائی لینے والا) ’’ہا‘‘ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب باب إذا تثاءب فلیضع یدہ علی فیه، حدیث:6226)
(3) شیطان کے ہنسنے کی وجہ یا تو انسان کا مذاق اڑانا ہے۔ یا وہ خوشی سے ہنستا ہے۔ کیونکہ جمائی سستی اور کاہلی کی علامت ہے جو شیطان کو پسند ہے۔ اس لئے کہ کاہلی کی وجہ سے انسان بہت سی نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا موضوع ، آفته عبد الله بن سعيد هذا ، فإنه متهم بالكذب ، وقد رواه
جمع عن أبيه سعيد المقبري وغيره عن أبي هريرة دون قوله : " ولا يعوي " . فهو
مما تفرد به عبد الله المقبري ، فهو موضوع ، فروى ابن أبي ذئب عن سعيد المقبري
عن أبيه عن أبي هريرة مرفوعا بلفظ :
" إن الله عز وجل يحب العطاس ، ويكره التثاؤب ، فمن عطس فحمد الله فحق على من
سمعه أن يقول : يرحمك الله ، وإذا تثاءب أحدكم ، فليرده ما استطاع ، ولا يقل
: آه ، آه ، فإن أحدكم إذا فتح فاه ، فإن الشيطان يضحك منه أوبه " .
أخرجه أحمد ( 2/428 ) بإسناد صحيح على شرط الشيخين ، والبخاري ( 4/165 ) دون
قوله " ولا يقل : آه ، آه " ، وكذلك أخرجه في " بدء الخلق " ( 2/333 )
باختصار .
وأخرجه مسلم ( 8/226 ) ، وابن حبان ( 4/44/2354 ) ، وأحمد ( 3/37 و93 و96
) وغيرهما من حديث أبي سعيد الخدري مرفوعا نحوحديث
الترجمة ، إلا أنه قال : "
فإن الشيطان يدخل مع التثاؤب " ، واللفظ لأحمد . وزاد هو ومسلم والترمذي (
370 ) ، وابن حبان ( 2353 ) ، وصححه الترمذي في " الصلاة " .