تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) میرا خیال رکھنا اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تعلق کا لحاظ رکھتےہوئے ان سے محبت اوران کا احترام قائم رکھنا۔
(2) تابعین اورتبع تابعین بھی قابل احترام ہیں لہٰذا ان سےمحبت اوران کا احترام ضروری ہے۔
(3) صحابہ، تابعین اورتبع تابعین کےدورمیں خیر غالب اورشرمغلوب تھا۔ عام لوگوں میں اخلاق وکردار کی وہ خرابیاں نہیں تھیں جوبعد میں ظاہر ہوئیں۔ ان زمانوں میں جو فکری غلطیاں پیداہوئیں ان میں بھی وہ شدت نہیں تھی جو بعد کے لوگوں میں پیدا ہوگئی۔
(4) گواہی طلب نہ کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ گواہ گواہی دینے کو تیارہوں گے لیکن وہ اخلاقی طور پرکمزور ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہوں گے، اس لیے انہیں گواہ کے طور پر قبول اور پسند نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی قسموں پر بھی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
(5) مسلمان کو چاہیے کہ ایسے برے لوگوں میں شمار ہونےسے بچنے کی کوشش کرے جن کی پیش گوئی احادیث میں کی گئی ہے، اوراپنے کردار کوبہتر بنائے تاکہ اس کی گواہی اورقسم قابل اعتماد ہو۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 3 / 109 :
أخرجه ابن ماجة ( 2 / 64 ) من طريق جرير عن عبد الملك بن عمير عن جابر بن سمرة قال : " خطبنا عمر بن الخطاب بـ ( الجابية ) ، فقال : إن رسول الله صلى
الله عليه وسلم قام فينا مقامي فيكم ، فقال " فذكره . و من هذا الوجه أخرجه
النسائي ( في الكبرى ) و الطيالسي و الحارث بن أبي أسامة و عبد بن حميد و أبو
يعلى الموصلي كلهم عن جرير به ، كما في " زوائد ابن ماجة " للبوصيري ( ق 145 /
2 ) و قال : " إسناد رجاله ثقات " .
قلت : و هم من رجال الشيخين . و أخرجه أحمد ( 1 / 18 ) و الحاكم ( 1 / 114 ) من
طريق عبد الله بن دينار عن ابن عمر عن عمر به نحوه بلفظ : " استوصوا بأصحابي
خيرا ، ثم الذين يلونهم ... " الحديث نحوه . و قال : " صحيح على شرط الشيخين "
و وافقه الذهبي . ثم أخرج له طريقا أخرى عن سعد بن أبي وقاص قال : " وقف عمر بن
الخطاب بالجابية .... " الحديث ، و قال : " إسناده صحيح " . و وافقه الذهبي .
و فيه محمد بن مهاجر بن مسمار و لم أجد له ترجمة فيما عندي من المصادر ، و أما
أبوه فثقة من رجال مسلم و لم يذكروا في الرواة عنه ابنه محمدا هذا ! و جملة
القول أن الحديث صحيح بمجموع طرقه .