اردو حاشیہ:
(1) دنیوی معاملات میں اصول یہ ہے کہ ہر وہ کام جائز ہے۔ جس سے قرآن و حدیث نے منع نہ کیا ہو۔ اس کے برعکس عبادات میں وہی کام جائز ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔ اس لیے دینی امور میں نیا ایجاد کیا ہوا کام بدعت ہے، دنیوی معاملات میں نہیں۔
(2) ایسے فرضی مسائل کے بارے میں بحث مباحثہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، جن کا عملی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔
(3) پیغمبر علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی ہلاکت کا باعث ہے۔
(4) اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے ایک حکم کی تعمیل کی طاقت نہیں رکھتا، تو وہ اللہ کے ہاں مجرم نہیں۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ:286) ’’اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں بناتا۔‘‘
(5) جس کام سے شریعت نےمنع کیا ہو، اس سے مکمل طور پر پرہیز کرنا ضروری ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 2 / 530 :
أخرجه الترمذي ( 3 / 379 ) و ابن ماجه ( 1 / 4 ـ 5 ) و أحمد ( 2 / 495 ) من طرق
عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه
وسلم : فذكره . و اللفظ للترمذي و قال : " حديث حسن صحيح " .
قلت : و إسناده على شرط الشيخين . و قد أخرجه البخاري ( 9 / 77 ـ نهضة ) و مسلم
( 4 / 102 ) و النسائي ( 2 / 2 ) و أحمد ( 2 / 247 ، 258 ، 313 ، 428 ، 447 ـ
448 ، 457 ، 467 ، 482 ، 495 ، 503 ، 508 ، 517 ) من طرق عديدة عن أبي هريرة به
نحوه و هو مخرج في " الإرواء " ( 155 ، 313 ) .