تشریح:
1۔ اثنائے سفر میں جمع بین الصلواتین مسنون ہے۔
2۔ عصر کو ظہر کے وقت میں اور عشاء کو مغرب کے وقت میں پڑھنا جمع تقدیم کہلاتا ہے۔ اور ظہر کو عصر کے وقت میں اور مغرب کو عشاء کے وقت میں پڑھنا جمع تاخیر اور حسب احوال دونوں ہی صورتیں جائز ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف جمع صوری جائز ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں پڑھا جائے۔ اور عصر کو اس کے ابتدائی وقت میں اسی طرح مغرب عشاء کو جمع کرنے کا مسئلہ ہے۔ یعنی مٖغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھا جائے۔ لیکن اس طرح کیا جمع کر کے پڑھنے کو جمع کر کے پڑھنا کہا جاسکتا ہے۔ یہ تو ہر نماز اپنے اپنے ہی وقت پر ادا ہوئی ہے۔ اسے جمع کہنا ہی غلط ہے اس لئے انہوں نے اس کا نام ہی جمع صوری رکھا ہے۔ یعنی دیکھنے میں جمع ہے لیکن حقیقت میں جمع نہیں لیکن نبی کریم ﷺ نے جمع تقدیم یا جمع تاخیر کی ہے۔ کیا وہ جمع صرف صورتا اسی طرح تھیں۔ جس طرح جمع صوری کا طریقہ بیان کیا گیاہے۔ ظاہری بات ہے حدیث کے الفاظ اس کو قبول نہیں کرتے۔ حدیث سے تو واضح طور پرمعلوم ہورہا ہے۔ کہ جمع تقدیم کی صورت میں نبی کریم ﷺ نے ایک نماز کو اس کے اول وقت میں (ظہر یا مغرب کی نماز کو) پڑھا اور اس کے ساتھ ہی فوراً دوسری نماز (عصر یا عشاء) پڑھ لی۔ اور تاخیر کی صورت میں پہلی نماز کا وقت نکل جانے کے بعد دوسری نماز کے وقت میں آپ نے دونوں نمازیں (عصرکے وقت میں عصر کے ساتھ نماز ظہر بھی اور عشاء کے وقت میں عشاء کی نماز کے ساتھ مغرب کی نماز بھی ) پڑھیں۔ ان کو کسی طرح بھی جمع صوری نہیں کہا جا سکتا۔ یہ حقیقی جمع تھیں اس لئے حالات کے مطابق جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طریقے جائز ہیں۔ اور یہ واضح طور پر نبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں۔ یہ اسلام کے ان محاسن میں سے ایک ہے۔ جن کی بنا پر اسلام کو دین یسرـ (آسانی) اور رحمت سے مسلمانوں کو محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ جو نبی کریم ﷺنے اپنے امتیوں کو عطا کی ہیں۔ ھذاھم اللہ إلی صراط المستقیم
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح) . إسناده: حدثنا يزيد بن خالد بن يزيد بن عبد الله بن مَوْهَبٍ الرملي الهَمْداني: ثنا المُفَفخلُ بن فَضَآلَةَ والليث بن سعد عن هشام بن سعد عن أبي الزبير عن أبي الطفيل عن معاذ بن جبل.
قلت : وهذا إسناد رجاله ثقات؛ إلا أن أبا الزبير مدلس، وقد عنعنه. لكن الحديث- مع ذلك- صحيح؛ لشواهده، التي منها حديث ابن عباس بعده. والحديث أخرجه الدارقطني (ص 150) ، والبيهقي (3/162) كلاهما من طريق المؤلف.. به؛ إلا أن البيهقي قال: عن الليث، مكان: والليث. وهو كذلك في بعض النسخ من الدارقطني ؛ كما في التعليق المغني للشيخ أبي الطيب، وقال: وهو الصحيح !
قلت: فإن كان يعني باعتبار نسخ الدارقطني ؛ فلا كلام. وإن كان يعني باعتبار ما يقتضيه النقد العلمي العام؛ فلا أراه كذلك؛ بل الصواب ما في النسخ الاخرى؛ لأمرين: الأول: لموافقتها لما في الكتاب. والأخر: أنه الذي يوافق ما ذكروه في ترجمة الرملي هذا: أنه روى عن الليث ابن سعد ومفضل بن فضالة، وفي الوقت نفسه لم يذكروا الليث في شيوخ المفضل. هذا وقد خولف الرملي في إسناد هذا الحديث عن الليث؛ فراجع الحديث الأتي برقم (1106) و إرواء الغليل (578) .
قال أبو داود: رواه هشام بن عروة عن حسين بن عبد الله عن كُرَيْبٍ عن ابن عباس عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... نحو حديث المفضل والليث .
(قلت: يعني: الذي قبله. وقد وصله الشافعي وغيره، وهو حديث صحيح. وقد قوّاه البيهقي (. وصله الشافعي (1/16) ، وأحمد (1/367- 368) ، والطبراني في المعجم الكبير (3/1/125) ، والدارقطني (149) ، والبيهقي (3/163- 164) من طرق - فيها عند بعضهم هشام بن عروة- عن حسين بن عبد الله... به. وقال البيهقي: وهو يشواهده قوي .
قلت: وفي إسناده اختلاف بيّنه الدارقطني وجمع بينها. قال الحافظ: إلا أن علته ضعف حسين، ويقال: إن الترمذي حسنه، وكأنه باعتبار المتابعة، وغفل ابن العربي فصحح إسناده! لكن له طريق أخرى، أخرجها الحِمَّاني في مسنده عن أبي خالد الأحمر عن الحجاج عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس. وروى إسماعيل القاضي في الأحكام عن إسماعيل بن أبي أويس عن أخيه عن سليمان بن بلال عن هشام بن عروة عن كريب عن ابن عباس... نحوه .