تشریح:
1۔ اللہ عزوجل بذاتہ عرش معلیٰ پر ہے۔ اور اپنے علم۔ سمع۔ بصر۔ اور قدرت کے لہاظ سے اپنے بندوں اور مخلوق کے انتہائی قریب ہے۔ اسی مفہوم میں یہاں ذکر ہوا ہے کہ وہ تمہارے اور تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔
2۔ قران کریم اور احادیث صحیحہ میں اللہ عزوجل کی صفات دو انداز سے مذکور ہوئی ہیں۔ اثباتی اور سلبی۔ جیسا کہ سورہ اخلاص میں ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ صمد ہے ان میں اثبات ہے۔ اس نے جنا نہیں وہ جنا نہیں گیا۔ کوئی اس کی برابری کرنے والا نہیں ہے۔ ان میں سلب کا اثبات ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں دوسری نوع کی صفات کا ذکر ہے۔ وہ بہرا نہیں ہے یعنی سمیع ہے۔ وہ غائب نہیں ہے۔ یعنی قریب ہے۔
3۔ چلا چلا کر اللہ کا ذكر كرنا بے عقلی ہے۔ جن مواقع پر اونچی آوازسے ذکرکرنے کا بیان آیا ہے۔ وہاں آواز بالکل مناسب اور معقول رکھنے کی تعلیم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ (وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا) (بني إسرایئل:110)
4۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کلمہ (لاحول ولاقوة ) كو كلمه استدلام وتفويض سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی بندہ فی ذاتہ کسی چیز کا مالک نہیں۔ مگر وہی جو اللہ چاہے۔
5۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں (إِنَّ الذِي تدعونَه بينَكُم و بين أعناقِ ركابِكم) بے شک جسے تم پکارتے ہو وہ تمہارے او ر تمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان ہے۔ کے الفاظ منکر ضعیف ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو والبخاري؛ دون قوله: إن الذي تدعونه بينكم وبين أعناق ركابكم ؛ وهذا منكر) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد عن ثابت وعلي بن زيد وسعيد الجُريرِي عن أبي عثمان النهدي: أن أبا موسى الأشعري...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ لكن قوله: إن الذي تدعونه بينكم وبين أعناق ركابكم ! منكر بهذا اللفظ؛ لروايات الثقات الأتية وغيرهم، وقد تفرد به علي بن زيد- وهو ابن جدعان-، وهو سيئ الحفظ، كما حققت ذلك في تخريج السنة رقم (618) ، فلا داعي للإعادة. والحديث أخرجه البخاري في الدعوات (11/156 و 178) وغيره، ومسلم (8/73- 74) ، وأحمد (4/394 و 402 و 407 و 417- 418- 419) ، والمصنف - فيما يأتي- من طرق أحرى عن أبي عثمان... به؛ دون الزيادة المذكورة.