تشریح:
مختلف روایات کی روشنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان یا تو مبالغہ پر مبنی ہے، یا یہ مقصد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات روزے ابتدائے مہینہ میں رکھتے، کبھی درمیان مہینہ میں اور کبھی آخر مہینہ میں، یا یہ مقصد ہے کہ خال خال ہی کسی دن ناغہ کرتے تھے ورنہ عام ایام میں روزے ہی رکھتے تھے۔ ماہِ شعبان فضیلت والا مہینہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔ (سنن النسائي‘ الصيام‘ حديث:2359) اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کی بابت ایک حدیث سندا صحیح ہے اس میں آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس رات شرک کرنے اور بغض و کینہ رکھنے والے کے سوا تمام لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ (مجمع الزوائد‘ 8/65 وابن حبان‘ حديث:5665 والصحيحة‘ حديث:1144) روزے کی بابت آپ سے مروی ہے آپ شعبان کے مہینے کے کسی دن کو روزے کے ساتھ خاص نہیں کرتے تھے بلکہ اس ماہ میں اکثر روزے رکھا کرتے تھے، دوسری بات کہ پندرھویں رات کو اگر کوئی اس نیت سے عبادت کرتا ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، تو وہ ممکن حد تک ہر کسی کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے عبادت کر سکتا ہے، لیکن اس رات میں چراغاں کرنا یا موم بتیاں جلانا یا اگلے دن کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم.
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وصححه ابن خزيمة والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا عبد الرحمن بن مهدي عن معاوية بن صالح عن عبد الله بن أبي قيس سمع عائشة تقول...
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. والحديث في مسند أحمد (6/188) ... بإسناده ومتنه. وأخرجه ابن خزيمة في صحيحه (2077) : وحدثنا عبد الله بن هاشم: حدثنا عبد الرحمن... به. ثم أخرجه هو، والنسائي (1/321) ، والحاكم (1/434) ، وعنه البيهقي (4/292) من طريق ابن وهب: أخبرني معاوية بن صالح... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي!
قلت: وهذا من أوهامهما، وبخاصة الذهبي منهما؛ فإنه قال في ترجمة معاوية هذا من الميزان : وهو ممن احتج به مسلم دون البخاري، وترى الحاكم يروي في مستدركه أحاديثه ويقول: على شرط البخاري ؛ فيَهِمُ في ذلك ويكرِّره !