تشریح:
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔ اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔ قرآن مجید میں ہے کہ (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ) (الأحزاب:35) تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔
2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔ مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔
3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔
5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وهو عند مسلم بإسناد المصنف) . إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد: حدثني أبي عن الوليد بن كثير: حدثني محمد بن عمرو بن حَلْحَلَةَ الدّؤلي أن ابن شهاب حَدثه أن علي بن حسين حدثه.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وأخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم (7/141) ... بإسناد المصنف ومتنه. وهو في مسند أحمد (4/326) . وأخرجه البخاري (6/161) : حدثنا سعيد بن محمد الجَرْمِي: حدثنا يعقوب ابن إبراهيم... به. وأخرجه الشيخان وغيرهما من طرق أخرى عن ابن شهاب... به نحوه، ويأتي بعضها قريباً.