قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُنَّ مِنْ النِّسَاءِ)

حکم : صحیح 

2069. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدِّيْلِيُّ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ ابْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِي اللَّهُ عَنْهُمَا-, لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ! وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا، حَتَّى يُبْلَغَ إِلَى نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ، عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا- وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ-، فَقَال:َ >إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا<، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ فَأَحْسَنَ، قَالَ: >حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَّى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا، وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا.

مترجم:

2069.

جناب ابن شہاب زہری سے مروی ہے کہ جناب علی بن حسین (بن علی بن ابی طالب) نے بیان کیا کہ ہم لوگ سیدنا حسین بن علی ؓ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے، تو مجھے مسور بن مخرمہ ؓ ملے اور کہا، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم فرمائیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار عنایت فرما سکتے ہیں؟ مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے متعلق قوم کہیں آپ پر غالب نہ آ جائے۔ اور قسم اللہ کی! اگر آپ مجھے یہ عنایت فرما دیں تو میرے جیتے جی کبھی کوئی اس تک نہ پہنچ سکے گا۔ (رسول اللہ ﷺ کی عزت اور آپ کی عترت کی حفاظت اور دفاع ہم پر لازم ہے۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ یہ ہے کہ) سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے سیدہ فاطمہ‬ ؓ ک‬ے ہوتے ہوئے ابوجہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام بھیج دیا۔ میں نے اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا جب کہ میں ان دنوں بالغ تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”فاطمہ مجھ سے ہے اور مجھے فکر ہے کہ کہیں اس کے دین میں کوئی امتحان نہ آ جائے۔“ پھر آپ ﷺ نے بنی عبدشمس (بنی امیہ) میں سے اپنے داماد (سیدنا ابوالعاص بن الربیع) کا ذکر کیا اور اس کی مدح فرمائی اور خوب فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے مجھ سے بات کی تو سچی کی، وعدہ کیا تو پورا کیا۔ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا۔ لیکن قسم اللہ کی! اللہ کے رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔“