تشریح:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت، جس طرح یہاں ابوداود میں آئی ہے، شاذ ہے، اسی لیے ہمارے فاضل محقق الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت ابن عباس وغیرہ کی دیگر صحیح روایات سے یہ مسئلہ ثابت ہے جو اس میں بیان ہوا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ بالا عام لوگوں کے حق میں منسوخ ہے اور ان پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ مگر بعض بوڑھے جو روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں مگر اس کے اثرات مابعد کے متحمل نہ ہو سکتے ہوں اور انہیں ازحد مشقت ہوتی ہو تو ان کے لیے فدیہ دے کر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ اور ایسے ہی حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کا مسئلہ ہے کہ اگر ان کے روزہ رکھنے سے رحم میں زیر پرورش یا دودھ پیتے بچے کی بابت اندیشہ ہو، تو ان کے لیے بھی فدیے کی رخصت ہے۔ گویا زیادہ بوڑھے مردو عورت کو ان کی اپنی ذاتی کمزوری کی بنا پر رخصت دی گئی ہے اور حاملہ و مُر ضِعَہ کو رخصت بچوں کے اندیشے کے پیش نظر دی گئی ہے۔ تاہم حاملہ اور مُرضِعَہ بعد میں قضا دیں یا نہ دیں؟ اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ ان کے لیے فدیہ ہی کافی ہے، بعد میں قضا نہیں۔ دوسرا موقف حافظ ابن حزم کا ہے جو انہوں نے المحلیٰ (مسئلہ نمبر 770) میں بیان کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ان پر قضا ہے نہ فدیہ۔ تیسری رائے یہ ہے کہ فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں وہ قضا بھی دیں۔ چوتھی رائے ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں، وہ روزہ چھوڑ دیں، انہیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں، اور بعد میں قضا دیں۔ فضیلة الشیخ مولانا محمد علی جانباز حفظہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ (إنجاز الحاجة شرح سنن ابن ماجه:5/566) اور سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ اُردو:203/2، 205) حضرت ابن عباس کی اس موقوف روایت کی اسنادی بحث کے لیے دیکھئے۔ (إرواء الغلیل، حدیث:912)
الحکم التفصیلی:
(قلت: شاذ بهذا اللفظ. اختصره الراوي اختصاراً مُخِلاً بالغاً؛ فأسقط منه الجملة الاتية بعد قوله: (مسكيناً) : ثم نسخ ذلك في هذه الأية: (فمن شهِد منكم الشهر فليصمه) ، وثبت للشيخ الكبير، والعجوز الكبيرة، إذا كانا لا يطيقان الصوم ) . إسناده: حدثنا ابن المثنى: ثنا ابن أبي عدي عن سعيد عن قتادة عن عزْرة (الأصل: عروة) عن سعيد بن جبير عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ لكنه شاذ؛ لما ذكرت آنفاً، ويدل على ذلك أمور، من أهمها: أولاً: أن الحديث أخرجه جماعة- منهم البيهقي- من طرق عن سعيد بن أبي عروْبة... بالتمام الذي ذكرته آنفاً. ثانياً: أن البيهقي رواه- بعد أن ساقه بتمامه من طريق المؤلف- ولم يسق لفظه، ولكنه قال: فذكره يعني: بتمامه. ثالثاً: أن المعروف عن ابن عباس من طرق عنه: أن الاية فيمن لا يستطيع الصوم كالشيخ الكبير، والمرأة الكبيرة، والمريض الذي لا يشفى. وقد خرجْتُ الطرق المشار إليها، وبينْت ما وقع في رواية المصنف- من الخطأ في السند، والشذوذ في المتن- في إرواء الغليل (912 و 929) ، فمن شاء البسط؛ فليرجع إليه.