تشریح:
ایام تشریق اصلا، عید ہی کے ایام ہیں۔ ان میں عام نفلی روزہ رکھنا جائز نہیں۔ البتہ حج تمتع والا اگر قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر دس روزے لازم آتے ہیں۔ تین دن ایام حج میں اور سات گھر واپس آ کر۔ چنانچہ اس کو رخصت ہے کہ ایام تشریق میں یہ روزے رکھ لے۔ سورہ بقرہ میں ہے: (فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ) (البقرة: 196) البتہ اس میں یوم عرفہ کا جو ذکر ہے کہ اس دن بھی روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے، تو یہ بات حاجیوں کے لیے ہے۔ ان کے لیے روزہ نہ رکھنا بہتر ہے، تاکہ وہ عرفات میں وقوف کی عبادت صحیح طریقے سے کر سکیں۔ لیکن غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ (9ذوالحجہ) کے روزے کی یہی فضیلت ہے کہ ان کے لیے یہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم، وكذا قال الحاكم، ووافقه الذهبي، وصححه الترمذي وابن خزيمة وابن حبان والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا الحسن بن علي: ثنا وهيب: ثنا موسى بن عُلَي. (ح) وثنا عثمان بن أبا شيبة: ثنا وكيع عن موسى بن عُلَي- والإخبار في حديث وهيب- قال: سمعت أبي أنه سمع عقبة بن عامر.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم، وكذا قال الحاكم والذهبي، وصححه آخرون ذكرتهم آنفاً، وقد خرجت الحديث عنهم وعن غيرهم في المصدر السابق.