تشریح:
ہفتے کا دن یہودیوں کی عبادت کا دن ہے اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم ہے، لہذا آگے پیچھے کے دن ساتھ مل جائیں یا ملا لیے جائں تو کوئی حرج نہیں، مثلا ایام بیض، ایام عاشورا وغیرہ لیکن اگر قضا یا نذر کا روزہ ہو یا یوم عرفہ ہفتے کا دن میں پڑ رہا ہو یا کوئی صوم داود کا عامل ہو تو ہفتے کے دن کا روزہ مباح ہو گا۔ کیونکہ یہ تخصیص نہیں۔ امام ابوداود کا اس حدیث کو منسوخ کہنے سے مراد، بقول علامہ البانی رحمة اللہ علیہ، شاید ابن حبان اور حاکم کی یہ روایت ہو جناب کریب مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت ابن عباس اور چند دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ تر کن دنوں میں روزے رکھتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہفتے اور اتوار کو۔ میں یہ جواب لے کر ان حضرات کی خدمت میں پہنچا اور انہیں بتایا تو انہوں نے اس پر (تعجب آمیز) انکار کیا۔ اور پھر وہ سبھی ام المومنین کی خدمت میں چلے گئے اور ان سے کہا: ہم نے آپ سے یہ یہ پچھوایا تھا اور آپ نے یوں یوں جواب دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کے دنوں میں اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مشرکین کے عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔ امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے مگر علامہ عبدالحق الاشبیلی رحمة اللہ علیہ نے الاحکام الوسطیٰ میں اس کی سند کو ضعیف کہا ہے اور علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے ابھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔ (ارواء الغلیل، حدیث:960) الغرض حدیث صحیح اور محکم ہے منسوخ نہیں اور عنوان باب ہی سےسب اشکالات ختم ہو جاتے ہیں، یعنی اس دن کو خاص کرنا جائز نہیں، جمعے یا اتوار کا دن ساتھ ملا لینا ضروری ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: فيه إشعار بأن الحديث صحيح عنده، وإلا؛ لم يكن بحاجة إلى ادعاء نسخه كما هو ظاهر! وإسناده صحيح على شرط البخاري، وكذلك قال الحاكم والذهبي، وصححه أيضاً ابن خزيمة وابن حبان وابن السكن والضياء المقدسي، وقال الترمذي: حديث حسن، ومعنى كراهته في هذا: أن يَخُص الرجل يوم السبت بصيام؛ لأن اليهود تُعَظِّم يوم السبت ) . إسناده: حدثنا حُمَيْدُ بن مَسْعَدَةَ: ثنا سفيان بن حبيب. (ح) وثنا يزيد بن قُبَيْس- من أهل جَبَلَةَ-: ثنا الوليد- جميعاً- عن ثور بن يزيد عن خالد بن مَعْدَانَ عن عبد الله بن بُسْرٍ السَلَمِي.
قلت: وهذا إسناد صحيح من الوجهين عن ثور بن يزيد، وقد جاء من وجهين آخرين عنه، فهو مستفيض عنه، وهو ثقة من رجال البخاري. وخالد بن معدان ثقة من رجال الشيخين. وكذلك السلمي، وهو صحابي معروف. ولذلك صحح الحديثَ جمعٌ من الأئمة، كابن خزيمة وابن حبان وغيرهم ممن ذكرنا آنفاً. وقد أعلّه بعضهمِ بالاضطراب! وليس بشيء؛ لأنه اضطراب غير قادح؛ كما فصَلت ذلك تفصيلاً- لا تراه في مكان آخر- في كتابي إرواء الغليل (960) ، وانظر الصحيحة (3101) . وأما دعوى نسخه الذي ذهب إليه المصنف رحمه الله تعالى؛ فهي مردودة بأنه من الممكن حمله على صوم السبت مفرداً، كما أفاده الترمذي. وحينئذ فلا تعارض بينه وبين حديث الباب الآتي، وأحاديث صيامه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إياه؛ لأنه ليس في شيء منها إفراده بالصيام. وقد بسط القولَ في هذا بسطاً شافياً: العلامةُ ابن القيم رحمه الله في تهذيب السنن (3/297- 301) ، وذكر خلاصته في زاد المعاد (1/237- 238) ؛ فليراجعهما من شاء.