تشریح:
فوائدومسائل: غسل خانے میں پیشاب سے بچنا ہی افضل ہے خواہ وہ کچا ہو یا سیمنٹ اور چپس وغیرہ سے بنا ہو کیونکہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ پیشاب کے لیے جگہ علیحدہ بنی ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ الغرض طہارت میں بداحتیاطی کی وجہ سے وسوسہ لاحق ہوسکتا ہے۔(2) ہر روز کنگھی سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عام دنیا داروں کی طرح ظاہری ٹیپ ٹاپ کا بہت زیادہ اہتمام نہیں ہونا چاہیے جیسے کہ عربوں کا عام معمول تھا کہ وہ بال لمبے رکھتے تھے، البتہ سادہ انداز میں کنگھی سے بالوں کو برابر کرنا کہ انسان باوقار نظر آئے ان شاء اللہ مباح ہے۔ عام مفہوم میں کنگھی کرنے کو بھی محدثین کرام نے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے۔ بہرحال مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی ذاتی زیب وزینت کو روزانہ کا معمول نہ بنائے جیسے کہ ہمارے گھروں میں یہ مصیبت در آئی ہے کہ حمام میں آئینہ، کنگھا، تیل وعطر، دروازے پر آئینہ کنگھا اور ڈریسنگ میز وغیرہ سجے رہتے ہیں۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر روز دوبار کنگھی کرتے تھے۔ (3) حدیث شریف میں وارد حکم مردوں کےساتھ ساتھ عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اگرچہ زیب وزینت ان کے لیے ایک اعتبار سے مطلوب ہے مگر اس میں بھی اعتدال ضروری ہے، نہ یہ کہ انسان ہروقت اپنی ظاہری اور مصنوعی افزائش حسن ہی پر لگا رہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذ ا قال النووي والعسقلاني والعراقي) . إسناده: ثنا أحمد بن يونسر: ثنا زهير عن داود بن عبد الله عن حميد الحميري. وهذا سند صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير داود بن عبد الله الأودي؛ وهو ثقة باتفاق النقاد. وللحديث تتمة تأتي برقم (74) . والحديث أخرجه النسائي أيضا (1/47 و 2/276) ، والحاكم (1/ 168) ،
والبيهقي (1/190) من طرق عن داود بن عبد الله الأودي عنه. وقال البيهقي: رواته ثقات؛ إلا أن حميداً لم يسم الصحابي الذي حدثه؛ فهو بمعنى المرسل ! وتعقبه ابن التركماني فأصاب، حيث قال: قد قدمنا أن هذا ليس بمرسل، بل هو متصل؛ لأنّ الصحابة كلهم عدول، فلا تضرهم الجهالة . ولذلك قال النووي في المجموع (2/91) ، والعراقي في التقريب (2/40) ، والحافظ في بلوغ المرام (1/22 من شرحه) : وإسناده صحيح . وقال في الفتح (1/240) : رجاله ثقات، ولم أقف لمن أعله على حجة قوية، ودعوى البيهقي أنه في معنى المرسل مردودة؛ لأنّ إبهام الصحابي لا يضر، وقد صرح التابعي بأنه لقيه. ودعوى ابن حزم أن داود- راويه عن حميد بن عبد الرحمن- هو ابن يزيد الأودي، وهو ضعيف: مردودة؛ فإنه ابن عبد الله الأودي، وهو ثقة، وقد صرح باسم أبيه أبو داود وغيره .
والحديث سكت عليه المنذري (رقم 26) . وله شاهد بسند حسن عن عبد الله بن يزيد، خرّجته في الصحيحة
(2516) في التبوُل.