تشریح:
فوائد ومسائل: یہ حدیث دلیل ہے کہ دائیں ہاتھ کو فضلیت حاصل ہے۔ ایک روایت میں نافع حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بائیں ہاتھ سے کسی سے کوئی چیز پکڑے نہ بائیں ہاتھ سے کوئی چیز پکڑائے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، باب آداب الطعام ولشراب واحکامهما، حدیث :202) اس معاملے میں لوگ احتیاط نہیں کرتے اور چیز لیتے اور دیتے وقت بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہیں، حالانکہ کھانے پینے کی طرح چیز لیتے اور دیتے وقت بھی صرف دایاں ہاتھ استعمال کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے کھائے نہ پیے، اس لیے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، باب آداب الطعام ولشراب واحکامهما، حدیث :202) اس سے معلوم ہوا کہ بائیں ہاتھ سے کھانا پینا شیطانی کام ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان فرنگیوں کی نقالی میں بڑے فخر سے بائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے ہیں، حالانکہ کافروں کے ساتھ مشابہت کرنے پر نہایت سخت وعید ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا: ’’دائیں ہاتھ سے کھا۔‘‘ اس نے کہا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو نہ ہی طاقت رکھے۔‘‘ اسے صرف تکبر نے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ اس حدیث کے راوی فرماتے ہیں اس کے بعد وہ شخص اپنا داہنا ہاتھ منہ کی طرف اٹھا ہی نہیں سکا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث :2021) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے جو بددعا فرمائی، وہ قبول ہوگئی، اس لیے بائیں ہاتھ سے کھانا پینا بہت سخت گناہ ہے۔ نظافت اور صفائی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کھانے اور پینے کے لیے صرف دایاں ہاتھ ہی استعمال کیا جائے کیونکہ استنجا وغیرہ کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے تو جس ہاتھ سے انسان اپنی گندگی صاف کرتا ہے، اس ہاتھ سے کھانا پینا کتنا معیوب ہے۔ ایسی پاکیزہ عادات واطوار کو معمول زندگی بنانے کے لیے اپنی اولاد میں ابتدا ہی سے ان عادات کا اہتمام والتزام کرنا چاہیے تاکہ شرعی آداب کا حامل نیک اور صالح معاشرہ تشکیل پا سکے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقال الحاكم: صحيح الاسناد ) . إسناده: ثنا محمد بن آدم بن سليمان المصيصي: ثنا ابن أبي زائده قال: ثتي أبو أيوب- يعني: الإفريقي- عن عاصم عن المسيب بن رافع ومعبد عن حارثة بن وهب الخزاعي قال: حدثتتي حفصة. وهذا إسناد حسن: محمد بن آدم المصيصي؛ وثقه النسافي وغيره. وعاصم: هو ابن بهدلة، وهو حسن الحديث. وبقية رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أبي أيوب الإفريقي- واسمه عبد الله ابن علي-؛ قال أبو زرعة:
لين، في حديثه إنكار، ليس بالمتين . وذكره ابن حبان في الثقات . وقال ابن معين: ليس به بأس ، ولخص ذلك الحافظ في التقريب فقال: صدوق يخطئ . وأمّا المنذري فقال في مختصره: فيه مقال ! فما صنع شيئا.
والحق أن مثل هذا لا ينزل حديثه عن درجة الحسن إذا لم يخالف. والحديث أخرجه الحاكم أيضا (4/109) من طريق معلى بن منصور: ثنا أبو أيوب الإفريقي... به، لكن ليس في إسناده (معبد) المقرون مع المسيب بن رافع؛ ووقع فيه تحريف في بعض الأسماء. ثمّ قال الحاكم: صحيح الإسناد ! ورده الذهبي بقوله: قلت: في سنده مجهول إ!
كذا قال! وليس بصواب؛ فإن رواته كلهم معروفون، ولعله أشكل عليه بعض الأسماء المشار إليها، فتكون وقعت في نسخته- أيضا- محرفة؛ والله أعلم. وأخرجه البيهقي (1/112- 113) من طريق أخرى عن يحيى... به مثل رواية الكتاب. والحديث رواه ابن حبان أيضا؛ كما في التلخيص (1/518) ( وهو في الموارد (1337) . ثمّ تبين لي أن فيه اختلافاً على عاصم: فرواه عنه أبو أيوب هكذا. ورواه أبان بن يزيد العطار فقال: ثنا عاصم عن معبد بن خالد عن سواء
الخزاعي عن حفصة... فأسقط من الإسناد (المسيب) قرين (معبد) ؛ وجعل(سواءًا لخزاعي) مكان (حارثة بن وهب الخزاعي) ، وهذا صحابي؛ وذاك تابعي وثقه ابن حبان، وأخرج له ابن خزيمة في صحيحه . ورواه حماد بن سلمة: ثنا عاصم بن بهدلة عن سواء الخزاعي عن حفصة... فأسقط من الإسناد (المسيب) وقرينه؛ وهما الواسطة بين (عاصم) عن (حارثة) أو (سواء) . ورواه زائدة عن عاصم عن المسيمب عن حفصة... فأثبت (المسيب) ، وأسقط الواسطة بينه وبين حفصة رضي الله عنها. وهذا اضطراب شديد، والظاهر أنه من عاصم؛ فإنه غير قوي في حفظه، وقد أخرج هذه الرويات عنه: أحمد في مسنده (6/287- 288) . وعلى كل حال؛ فالحديث صحيح بما بعده.