تشریح:
فائدہ۔ مذکورہ باب میں بنیادی طور پر یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ک ہ زیادہ قیمت حاصل کرنے کےلئے دودھ دینے والے جانورکا دودھ روکنا تاکہ گاہک اسے زیادہ دودھ دینے والا جانور سمجھ کر زیادہ قیمت دے حرام ہے۔ خریدار کو تین دن تک آزمانے کی اجازت ہے۔ اگر وہ ایسا جانور نہ رکھنا چاہیں۔ تو واپس کرکے اپنی قیمت لےسکتا ہے۔ البتہ دودھ جو جانوروں کے تھنوں میں خریداری کے وقت سے پہلے کا تھا۔ اور بیع مکمل ہونے کی صورت میں بیچنے والے کی طرف سے اپنی مرضی کے ساتھ چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کی حق دہی بھی ضروری ہے۔ اپنی پوری قیمت کی واپسی کے بعد خریدار کا اس پر حق باقی نہیں رہا۔ انصاف کےاعلیٰ معیار کے مطابق خریدار کو اس کے بدلے میں ایک صاع (تقریبا ڈھائی کلو) کھجور ادا کرنی چاہیے۔ عرب میں کھجور مقامی طور پر پیدا ہوتی تھی۔ اور سستی تھی۔ گندم خصوصاعمدہ قسم کی باہر سے لائی جاتی تھی۔ اس لئے مہنگی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے عام غذائی جنس دینے کا حکم دیا۔ کہ سمراء یعنی بڑھیا گندم دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ واپس کرنے والے سے زیادہ بہتر غذا کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کےعلاوہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بھی یہی ہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نےاس سے اختلاف نہیں کیا۔ (فتح الباري، کتاب البیوع، باب النھي للبائع أن لا یحفل۔۔۔) صرف احناف میں سے بعض کی رائے اس کے مخالف ہے۔ جب کہ امام زفر ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی جمہور ہی کے ساتھ ہیں۔ البتہ امام ابو یوسف ہر صورت کھجور کا صاع دینے کی پابندی سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کی قیمت ادا کرنے کو بھی روا سمجھتے ہیں۔ (فتح الباري، کتاب البیوع، باب النھي للبائع أن لا یحفل۔۔۔) اب اسلام بہت دور تک پھیل چکا ہے۔ انڈونیشیا۔ نایجریا۔ جیسے ممالک میں کھجور دستیاب ہیں نہیں۔ اس لئے اس علاقے کی باآسانی دستیاب غذائی جنس کھجور کے قائم مقام ہوگی۔ اور جس طرح امام ابو یوسف کا نقطعہ نظر ہے۔ ایسی جنس کی قیمت ادا کر دینا بھی درست ہوگا۔ واللہ اعلم۔