تشریح:
1۔ والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔ اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔ تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔ جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔ علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اور دعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔ لیکن والدین مالی لحاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔
2۔ اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور اس طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔ بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔
3۔ ظلم کا گواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) (المائدة: 2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پر تعاون مت کرو
4۔ داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔
5۔ اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔ (علامہ البانی)