تشریح:
1۔ انسان اللہ کی نعمت کھانے سے رہ بھی نہ سکے۔اور پھر اس کی عیب جوئی بھی کرے۔ یہ بہت بُری خصلت ہے۔ اگر کھانا تیار کرنے والے کی تقصیر ہوتو اس کو مناسب انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔
2۔ اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے۔ کہ انسان نے کسی شخص یا کسی ادارے سے کوئی معاہدہ طے کیا ہو۔ اور طے شدہ امور وشرائط پر معاملہ چل رہا ہو تو مناسب نہیں کہ اس ادارے یا افراد پر بلاوجہ معقول طعن وتشنیع کرے۔ یا تو بخیر وخوبی ساتھ نبھائے یا بھلے انداز سے جدا ہو جائے۔ تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا اسلامی شرعی اور اخلاق حق اچھے طریقے سے ادا کیا جانا چاہیے۔